ابوالحکم و ابولہب کسی بھی دور کا ہو ظلم و جبر ہی اسکی پہچان ہے۔مقابلے میں پیغمبر ہوں یا ان کے ماننے والے واﷲ وہ ہر دور میں کامیاب ٹھہرے۔
رنجیدگی کا کیا عالم طاری تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر،جب آپ اپنے رفیق جناب صدیق اکبر رضی اﷲ تعالی عنہ کیساتھ مکہ چھوڑ کر مدینہ کی جانب ہجرت کر کے جارہے تھے۔ اپنی63سالہ زندگی کے53 سال جہاں آپ نے گزارے تھے۔جہاں محبت کی سب سے بڑی بنیاد اﷲ کا گھر موجود ہو،اس سے زیادہ محبت کسی اور مقام سے کیسے ہو سکتی ہے؟جہاں کے چرندو پرند،شجر و ہجر،جہاں کے پتھر اور گلیاں چوک و چوراہے آپؐ سے واقف تھے۔جہاں آپ ؐکے آبائو اجداد کی نشانیاں موجود تھیں۔
رات کی تاریکی میں آپ ؐاپنے اس پیارے وطن کو خیرباد کہہ رہے تھے۔بیت اﷲکی جانب آپؐ کی حسرت بھری نگاہیں بار بار اٹھتی۔آپ ؐنے فرمایا کہ’’مکہ تو مجھے بہت پیارا ہے مگر تیرے رہنے والے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے‘‘۔
پیغمبر ؐ کی اس کیفیت کو آپ اور آپ کے رب سے زیادہ کون جانتا تھا مگر رب کی خاطر ہجرت کرنے والوں،اپنا گھر بار چھوڑنے والوں کو اجر،جی ہاں بے پناہ اجر میرا رب ہی تو ایسے نفوسِ قدسیہ کو دےگا۔
فلسطین،کشمیر،افغانستان،عراق،شام اور نہ جانے کہاں کہاں سے لوگ ہجرت پر مجبور کر دئیے گئے۔آج کے ابو لہبوں وابو جاہلوں اور انکے حمایتیوں نے نہ جانے کہاں کہاں جناب رسالت مآب ؐکے عاشقان کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
ہجرت کے موقع پر آپؐ کے یار غار سیدنا ابوبکر صدیقؓ،حضورؐکے کبھی آگے،کبھی پیچھے، کبھی دائیں اور کبھی بائیں ہوتے۔
اﷲکے پیغمبر نے پوچھا اے میرے صدیق ماجرا کیا ہے؟
ایسا کیوں کررہے ہو۔ابو قحافہ کے بیٹے نے جواب دیا،یارسول اﷲکیا معلوم کوئی تیر کس جانب سے آپ کی جانب آجائے۔اس لئے جگہیں بدل رہا ہوں کہ تیر میرے سینے پر آ کر لگے اور آپؐ کا جسم اطہر محفوظ رہے۔
جان قربان کرنے کے دعوے اور نعتیں پڑھنا تو آسان مگر محبت و الفت کے تقاضے پورے کرنے والے ابوبکر جیسے ہوتے ہیں۔چند روز کی زندگی کے لئے ہم کتنی دوڑ بھاگ کرتے ہیں۔ہمارا مرکز نگاہ کیا ہے؟دنیاوی وجاہت؟کون ہمارے لئے واہ واہ کرتا؟ ہم کس کے پیچھے پھر رہے؟صدر و وزیر اعظم اور دنیا میں بڑے نام والوں کے؟انکی قربت حاصل ہو جائے؟ان سے کوئی انعام و اکرام مل جائے؟خوشامد کے بول بول کے سینٹ،اسمبلی کی کوئی نشست مل جائے؟کوئی ٹھیکہ حاصل ہو جائے؟میری تنظیم کانام بڑا ہو جائے،ملکی نہیں بین الاقوامی اداروں و سفارت خانوں کو میں کیسے شیشے میں اتاروں کہ وہ کسی پروجیکٹ سے نواز دیں۔میری واہ واہ ہو جائے؟کوئی تمغہ،کوئی حسن کارکردگی کا ایوارڈ؟
بس یہ ہے ہماری معراج؟اسی کے آگے پیچھے مجھے اب زندگی کو گزارنا ہے؟
کل تک ہماری فکشنزکچھ اور نہ تھیں؟
ہم کچھ اور قِصے بیان نہیںکرتے؟
ہم طاغوت کیخلاف لوگوں کو ابھارتے نہیں تھے؟
پھر سوچ و فکر کے دھارے بدل گے۔طاغوت کا خوف ہمارے اذہان و سینوں میں جگہ پاتا چلا گیا۔ناخوب،خوب بنتا گیا۔
ہم بھول گے کہ پیغمبر ؐنے کہا تھا۔’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ،اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز نہ ہو جائوں‘‘۔
اﷲ اور رسول سے ایسی محبت کرنے والے جب موجود تھے تو ریاست مدینہ کے حکمران کی سلطنت آدھی دنیا پر قائم ہوگئی تھی۔آج جیسے ذرائع رسل و رسائل حاصل تھے نہ جدید ٹیکنالوجی مگر سینوں میں موجود ایمان ایسی بڑی ٹیکنالوجی و طاقت تھی کے وقت کی بڑی قوتیں زیر ہوتی گئیں۔ہر طرف اسلام کا پھریرا لہرا رہا تھا۔
آج امت مسلمہ وسائل سے مالامال،انسانی وسائل کی کمی نہ مال و دولت کی۔کچھ اعلان شدہ جوہری قوتوں کی حامل اور کچھ در پردہ۔سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود غیر مسلم قوتوں کے سامنے مسلمان حکمران بکری بنے بیٹھے۔آج کی بڑی طاقتیں اور ان کے حواری نیٹو ہو یا کوئی اور انھوں نے کمزور ایمان کے حامل مسلمان حکمرانوں کو اپنا غلام بنا کے رکھ دیا ہے۔
اس سب کچھ کے باوجود غیر مسلم قوتوں کی ہوس پوری ہونے کا نام نہیں لے رہی۔مختصر مدت میں کئی مسلمان ملک تباہ کر کے رکھ دئیے گئے،کچھ تباہی کے دہانے پر ہیں اور کچھ کی تباہی کی لام بندی کی جارہی ہے۔ابھی چار دہائی قبل ہی تو دنیا میں دو بڑی قوتیں تھیں سوویت یونین اور امریکہ۔باقی دنیا کے ملک انہی قوتوں میں سے کسی ایک کیساتھ منسلک تھے۔افغانستان میں سوویت یونین کی چڑھائی کے موقع پر امریکی سی آئی اے نے پاکستان،سعودی عرب اور دیگر مسلمان ممالک کو جارح قوت کیخلاف استعمال کیا۔
پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک کے نوجوانوں نے جذبہ جہاد کو بروئے کار لاتے ہوئے افغان مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اﷲکی راہ میں جانیں دینے والے اپنی مراد پائوگے مگر سچ یہ ہے کہ اس سارے عمل کے نتیجے میں امریکہ تنہا بڑی قوت بن گیا اور اس سانڈکے سامنے جو بھی آیا وہ اسے کچلتا چلا گیا۔امن و انسانی حقوق کے پجاریوں نے افغانستان میں ڈیزی کٹر سے انسانیت کو تہہ تیغ کیا۔ عراق میں انسانی تباہی کے مہلک ہتھیاروں کا واویلا کرکے بظاہر صدام حکومت گرا دی گئی مگر درحقیقت وہاں موجود تیل کے کنوئوں پر قبضہ کر لیا گیا۔چنگیزیت کی یادیں تازہ کرنے کے بعد برطانیہ کا سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عراق میں مہلک ہتھیاروں سے متعلق ہم نے جھوٹ بولا تھا۔امریکی خفیہ ادارے حکمت یار،ربانی اور دیگر مجاہدین جن کے ہاتھوں سوویت یونین کی تباہی ہوئی تھی کو اقتدار کے ایوانوں میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ان کیخلاف سازشوں کے تانے بانے بنے گے۔طالبان جن کو وزیراعظم بے نظیر کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر My Babiesکہتے تھے۔بظاہر پاکستان کی کوششوں سے جن کی حکومت کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کر رکھا تھا۔امریکہ نے پاکستان کو ایک بار پھر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔پاکستان کے فوجی آمر حکمران پرویز مشرف سے کہا گیا کہ افغان حکومت کیخلاف نیٹو کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرو تو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے اور آپ کے جوہری پروگرام کو مزید طاقتور بنانے میں مدد کی جائیگی۔آمر حکمران کی غلط حکمت عملی کے سبب طالبان جیسے دوستوں کی جگہ آج افغانستان میں بھی ہمارے دشمن اقتدار میں ہیں اور بھارت اب مشرق ہی سے نہیں مغرب سے بھی ہم پر حملہ آور ہے۔طالبان کے رہنما ملا عبدالسلام ضعیف کہتے ہیںکہ پاکستان پر ہم کو اعتبار نہیں، امریکہ سے براہ راست بات چیت کرینگے۔روس کا وزیر خارجہ کہتا ہے کہ نصف سے زائد علاقے پر طالبان کی حکومت ہے۔اس سب کچھ کے باوجود ہماری سوچ میں تغیر کیوں نہیں۔اپنے ہی بچوں کو بلا روک ٹوک ہم مار رہے ہیں، غائب کر رہے یا ان پر پاکستان کی زمین تنگ کردی گئی ہے۔تاریخ کا یہ طالب علم انہی حالات سے متعلق سوچ رہا تھا تو حبشہ وہجرت مدینہ یاد آئی۔سچ یہ ہے کہ کشمیر،شام،شیشان و افغانستان یا کوئی بھی جگہ ہو،جہاں مسلمان کا جینا مشکل بنا دیا گیا ہو اور وہ ہجرت پر مجبور کر دیا گیا ۔ایسے مہاجر کا اﷲ کے ہاں بڑا اجر ہے۔
آپ ؐنے فرمایا کہ’’سب انسانی اعمال کا دارومدار بس نیتوں پر ہے اور آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملتا ہے‘‘۔
پس مبارک ہو ایسے خوش بخت مہاجروں کو جو اﷲکی خاطر اپنے گھر بھر،آرام اور عمدہ سواریاں چھوڑ کر اپنے قدموں کو خاک آلود بنا رہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)