راجہ افتخار
پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کا آزاد کشمیر کی سیاست پر ہمیشہ گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں1985سے لیکر 2018تک پاکستان کے انتخابات سے آزادکشمیر کی سیاست پر اثر انداز ہوئے گزشتہ 33 سالوں کے دوران یہ 7واں موقع ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت کے دو اڑھائی سال بعد پاکستان میں مخالف حکومت قائم ہوئی ۔ وفاق کے اندر نئی قائم ہونے والی حکومت کے آزادکشمیر کی سیاست پر ہمیشہ گہرے اثرات پڑے ہیں لیکن اس مرتبہ ماسوائے عدم اعتماد کے آزاد حکومت پر فنڈز کے حوالے سے اثرات کم ہونگے آزادکشمیر میں 13ویں ترمیم کے بعد وزارت امور کشمیر سے مالیاتی اختیارات واپس حکومت آزادکشمیر کو مل چکے ہیں اب آزادکشمیر میں ٹیکس جمع کرنے اور پیسے آزادحکومت کے اکاؤنٹ 101میں جمع ہونگے کونسل کے ملازمین حکومت آزادکشمیر کے ملازم ہونگے تقریباً25ارب روپے جو کشمیر کونسل کے پاس چلے جاتے تھے اب 13 ویں ترمیم کے بعد وہ برائے راست حکومت آزادکشمیر کے پاس ہونگے پاکستان میں حکومت کے تبدیل ہونے کے بعد ان20،25 ارب روپے پر وزیر امور کشمیر اپنا قبضہ جما لیتا تھا۔ اس سے حکومت آزادکشمیر مالیاتی لحاظ سے کمزور ہو جاتی تھی۔
دوسرا بڑا حل طلب معاملہ جو ابھی تک لٹکا ہوا ہے وہ تقریباً 2500میگاواٹ پر نیٹ ہائیڈرل پرافٹ کا ہے یہ معاملہ کافی عرصہ سے چل رہا ہے حکومت پاکستان واٹر یوز چارجز دیتی ہے۔ جو2 پیسے فی یونٹ ہے۔ اسکو نیٹ ہائیڈرل پرافٹ میں تبدیل کرنا ہے۔ یہ معاملہ موجودہ دور میں شاید حل نہ ہو سکے دوسرا 56ارب روپے جوبے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 2008میں قرض لئے انکی واپسی کا معاملہ بھی حل طلب ہے۔ آزادکشمیر کو پاکستان کے آئین کے مطابق وفاقی ٹیکسوں میں جو حصہ ہے وہ تو کوئی حکومت نہیں روک سکتی ،فاٹا، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو آئین پاکستان کے مطابق ہی گرانٹ ملے گی تاہم موجودہ حکومت آزادکشمیر کے تعلقات پر بھی ہو گا کہ وہ اضافی گرانٹ کس طرح تعلقات کی بنیاد پر حاصل کرتے ہیں۔
آزادکشمیر میں پاکستان کے مفاد کی خاطر کام کرنے والے ادارے بھی آزاد کشمیر حکومت کو متاثر نہ کرنے کا مشورہ دیں گے اگر وفاقی حکومت کی ترجیحات میں مسئلہ کشمیر ہوا پھر آزادکشمیر حکومت کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہیں ہو گی کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی حکومت نے محبوبہ مفتی کی حکومت کو ختم کرکے گورنر راج قائم کیا ہوا ہے۔ دوسرا راجہ فاروق حیدر خان پہلے کشمیری وزیراعظم ہیں جو منقسم کشمیری خاندان سے کشمیری بولنے والے ہیں مقبوضہ کشمیر کے اندر حریت تنظیموں سے گہرے روابط ہیں اگر انہیں تنگ کیا گیا تو دونوں اطراف کے کشمیریوں میں مزاحمت پائی جائے گی کیونکہ یہ پہلے منقسم کشمیری وزیراعظم ہیں اب پاکستان کے مفاد کی خاطر کام کرنے والے اداروں کا کردار بڑھ گیا ہے کہ وہ تحریک آزادی کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں حکومت پاکستان کی کشمیر پالیسی اس سمت کا تعین کرے گی۔
2013 میں پاکستان کے اندر عام انتخابات ہوئے وہاں پر مسلم لیگ نے کامیابی حاصل کی میاں نواز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد آزاد کشمیر میں ایک مرتبہ پھر ماضی کی تاریخ دھرائی گئی پیپلزپارٹی کے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے پیپلزپارٹی کے وزیراعظم چوہدری مجید کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی میاں نواز شریف نے اپنے اراکین اسمبلی جن کی تعداد 12تھی انہیں تحریک عدم اعتماد میں الگ رہنے کی ہدایت کی۔ اس طرح چوہدری مجید کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی اس کے بعد دو مرتبہ پھر چوہدری مجید کو ہٹانے کی پیپلزپارٹی کے اندر سے کوشش ہوئی جو ن لیگ کے اراکین اسمبلی کی عدم اعتماد میں حمایت نہ کرنے پر ناکام ہوئی میاں نواز شریف نے آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے کا بھرپور موقع دیا۔ میاں نواز شریف نے اس بات کا کئی مرتبہ اظہار بھی کیا کہ ہم نے جمہوری روایات کو قائم رکھا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پیپلزپارٹی کی حکومتوں کو بھرپور موقع دیا کہ وہ اپنی مدت پوری کریں۔ لیکن لگتا ہے کہ شاید وفاق میں حکومت کی تبدیلی کے بعد آزاد کشمیر حکومت کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تیاری شروع ہوجائے ؟