• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

تحریک انصاف کو اب خیبر پختونخواہ میں حقیقی تبدیلی کے لئے جان لڑانا ہوگی

جنگ نیوز

گوھر علی خان

ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی 25جولائی کو ہونیوالے عام انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے جس میں بڑے بڑے برج اُلٹ چکے ہیں جبکہ کئی نئے چہرے نئی امیدوں کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ صوبے کے عوام نے صوبے کی تاریخ میں پہلی بار تحریک انصاف کو مسلسل دوسری پہلے سے بڑاا ور واضح مینڈیٹ دیکر نئی تاریخ رقم کی ہے ۔جس سے وزارت عظمیٰ کا تاج بالآخر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے سر سجنے والا ہے تودوسری طرح صوبے میں تحریک انصاف کو مسلسل دوسری مرتبہ حکمرانی کا موقع دے کر صوبے میں حقیقی معنوں میں نظر آنے والی تبدیلی لانے کا بال تحریک انصاف کے کورٹ میں پھینک دیا ہے ۔

الیکشن کے دوسرے مرحلے میں اقتدار کی پراُ من منتقلی اور حکومت سازی کے لئے سیاسی رابطے ،جوڑ توڑ اور باہمی مشاورت کا عمل عروج پر ہے جس کے دوران وفاق کے علاوہ خیبرپختونخوا میں واضح برتری حاصل ہونے کے بعد نئے گورنرز اور وزیر اعلیٰ کے ناموں پرغور کیا جارہا ہے۔تاہم تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں اور مشاورت کا محور بنی گالا سے موصول ہونے والی آخری اطلاعات کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ پرویزخٹک اور سابق اسپیکر اسد قیصر وزارت اعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہوچکے ہیں اور دونوں قومی اسمبلی کی نشست خالی نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔جس کے بعد صوبے کے نئے وزیر اعلیٰ کے لئے مردان سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر تعلیم عاطف خان اور پشاور کے سابق وزیر اطلاعات شاہ فرمان کے درمیان مقابلہ ہے جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق عاطف خان وزارت اعلیٰ کے لئے مضبوط امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں ۔ 

اس وقت وزارتوں اورمشیروں کے عہدوں کے امیدواروں سمیت تحریک انصاف کے ہر منتخب رکن بنی گالا نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں جہاں وہ تحریک انصاف کی تاریخی فتح کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ من پسند عہدے حاصل کرنے کیلئے پارٹی قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں بلکہ عہدوں کے حصول کیلئے پارٹی کے اندر ’’ لابنگ ‘‘ بھی کی جاری ہے‘ 25جولائی کو ہونیوالے عام انتخابات نے خیبرپختونخوا کی سیاسی تاریخ بدل کر رکھ دی ‘ جہاں صوبے کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار تحریک انصاف کو صوبے میں پانچ سال حکمرانی کے بعد مسلسل دوسری مرتبہ پہلے سے واضح مینڈیٹ ملا جبکہ روایتی اور موروثی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو نہ صرف مسترد کر دیا گیا جبکہ جے یو ا?ئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن‘ اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان اور قومی وطن پارٹی کے ا?فتاب احمد خان شیرپائو سمیت بڑے بڑے برج گرا دئیے گئے‘ انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے حوالے سے جو اندازے لگائے گئے تھے وہ تمام غلط ثابت ہوئے ‘ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ماضی میں ہونیوالے عام انتخابات کی طرح ان انتخابات پر بھی ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا حتیٰ کہ متحدہ مجلس عمل کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر ا?ل پارٹیز کانفرنس جوکہ ہمیشہ کی طرح ایک لاحاصل عمل ہے بلائی گئی مگر اس بات میں شک نہیں کہ عوام نے اپنی مرضی سے تحریک انصاف کو نہ صرف دوسری مرتبہ ووٹ دیا بلکہ پہلی مرتبہ68نشستیں حاصل کرکے سنگل اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھر کر 40سال سے موروثی سیاست کرنیوالے نام نہاد جمہوریت پسندوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے اور انہیں پیغام دیا ہے کہ اب ان کا کھیل مزید چلنے والا نہیں جنہوں نے کبھی اسلام کے نام پر تو کبھی جمہوریت کے نام پر عوامی مینڈیٹ کے ساتھ کھلواڑ کیا‘ انتخابی نتائج مکمل ہونے کے بعد اس وقت وفاق کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا میں بھی حکومت سازی کیلئے مشاورت کا عمل تیزی کے ساتھ جاری ہے‘ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اب تک کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں 68نشستوں کے ساتھ واضح برتری حاصل کئے ہوئے ہے جبکہ متحدہ مجلس عمل 10نشستوں کے ساتھ دوسرے‘ عوامی نیشنل پارٹی 6نشستوں کے ساتھ تیسرے جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی 4‘4نشستوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں جبکہ قومی وطن پارٹی جسے گزشتہ اسمبلی میں10نشستوں کے ساتھ نمائندگی حاصل تھی اس مرتبہ کسی بھی نشست پر کامیاب نہ ہونے کی وجہ سے اسمبلی سے مکمل طور پر ا?ئوٹ ہو گئی ہے ‘ اگر مجموعی طو رپر دیکھاجائے تو چارسدہ جو کہ اے این پی اور قومی وطن پارٹی کا گڑھ تھا اس مرتبہ وہاں سے ان دونوں جماعتوں کا مکمل صفایا ہو گیا ہے ‘ جے یوا?ئی جس کا جنوبی اضلاع سمیت ڈی ا?ئی خان پر کافی ہولڈ تھا وہاں نہ صرف مولانا فضل الرحمن ڈی ا?ئی خان سے قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں چار چکے ہیں بلکہ سابق وزیراعلیٰ اکرم درانی کو بنوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا‘ اسی طرح اس بار وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار امیر مقام جنہوں نے دن رات ایک کرکے صوبے میں مسلم لیگ (ن) کو زندہ رکھنے کی کوشش کی نہصرف خود تمام نشستوں سے ہار چکے ہیں بلکہ ان کی جماعت کے سربراہ شہباز شریف بھی سوات سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب نہ ہو سکے جبکہ اس کے برعکس تحریک انصاف کے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلی سمیت 3نشستوں‘ سابق اسپیکر اسد قیصر ایک قومی ‘ ایک صوبائی‘ سابق صوبائی وزراء شاہ فرمان ‘ علی امین گنڈا پور اور ڈاکٹر امجد کے علاوہ ڈاکٹر حیدر علی شاہ بھی دو نشستوں سے کامیاب ہوئے جبکہ خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستوں پر نامزدگیاں ابھی باقی ہیں جس کے بعد تحریک انصاف کے ممبران کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائیگا‘ اراکین اسمبلی اور پارٹی پوزیشن کیلئے اعداد و شمار کی جمع تفریق کا سلسلہ ابھی جاری ہے اور یہ صورتحال اراکین اسمبلی کی جانب سے حلف اٹھانے کے بعد ہی مکمل طور پر واضح ہو گی صوبے کے عوام نے مسلسل دوسری مرتبہ تحریک انصاف پر جو اندھا اعتماد کیا ہے ‘ پی ٹی ا?ئی کو بھی اس کی لاج رکھنی چاہیے اور حقیقی تبدیلی کیلئے بھی جان لڑانا ہوگی ۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین