انتخابات کے بعد معاملات طے شدہ شیڈول کے مطابق اقتدار کی منتقلی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حکومت سازی کے حوالے سے تمام شکوک و شبہات کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ مرکز نیز چاروں صوبوں میں حکومتیں بننے جا رہی ہیں۔ تمام عہدوں پر نامزدگیاں ہوچکی ہیں اور ملک کے کس حصہ کو کون سا عہدہ ملنا تھا اس کی تفصیل بھی سامنے آچکی ہے تاہم جنوبی پنجاب میں اس حوالے سے چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر نامزدگیاں کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کو کیوں نظرانداز کیا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ 15 کروڑ آبادی کے اس علاقہ سے خواتین کی قومی اسمبلی میں مخصوص 33 نشستوں میں سے صرف 6 خواتین کو نمائندگی دی گئی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کی 66 سیٹوں میں سے بھی جنوبی پنجاب کی صرف 6 خواتین کو نشستیں دی گئی ہیں جہاں تک ا قلیتی نشستوں کا تعلق ہے تو قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست جنوبی پنجاب کے حصہ میں آئی ہے اسی طرح صوبائی اسمبلی میں بھی صرف ایک سیٹ دی گئی ہے حالانکہ یہاں اقلیتی آبادی پنجاب کے دیگر حصوں سے کہیں زیاد ہے۔
سیاسی کارکنوں ، قوم پرست تنظیموں کے رہنمائوں اور یہاں کے دانشوروں کو سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ تحریک انصاف نے اس خطہ کو مخصوص نشستوں پر کیوں بری طرح انداز کیا حالانکہ جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کو توقع سے بڑھ کر کامیابی ملی ہے اور اگر اس تناسب سے مخصوص نشستوں کا کوٹہ الاٹ کیا جاتا تو جنوبی پنجاب کو بھی قومی و صوبائی اسمبلی میں بھرپور نمائندگی مل سکتی تھی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے حصہ کی 16 نشستوں میں سے صرف ایک نشست پر راجن پور کی ڈاکٹر شیریں مزاری کو نمائندگی دی ہے جو عرصہ دراز سے اسلام آباد میں ہیں۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں اس بار خاص طور پر ملتان سے کوئی ایک خاتون بھی اس خطہ کی خواتین کے حقوق کی آواز بلند کرنے کیلئے موجود نہیں ہوگی۔ اس طرح صوبائی اسمبلی میں اپنے حصہ کی 33 مخصوص نشستوںمیں سے جنوبی پنجاب کو صرف 3 سیٹیں دی گئی ہیں جن میں سے ملتان سے تعلق رکھنے والی سبین گل ، خانیوال کی شاہدہ احمد اور ڈیرہ غازی خان کی شاہین کریم شامل ہیں۔ مسلم لیگ ن نے بھی اس بار ملتان کو خاص طور پر مخصوص نشستوں پر بری طرح نظرانداز کیا۔ اس سے پہلے ملتان سے قومی اسمبلی ایک اور صوبائی اسمبلی کی 2 نشستوں پر خواتین کو نمائندگی دی گئی تھی مگر اس بار ملتان سے کسی کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر اپنے کوٹہ کی 15 نشستوں میں سے 4 سیٹیں جنوبی پنجاب کو دیں جن میں ڈی جی خان کی شہناز سلیم ، رحیم یار خان کی مائزہ حمید ، جعفر آباد رحیم یار خان کی زیب جعفر اور لودھراں کی ثمینہ مطلوب شامل ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کے کوٹہ کی 30 نشستوں میں سے صرف 2 نشستیں جنوبی پنجاب کو دی گئیں۔
صرف پیپلزپارٹی ایسی جماعت ہے جس نے مخصوص نشستوں پر اپنے محدود کوٹہ سے جنوبی پنجاب کو نمائندگی دینے کی کوشش کی ہے۔ پی ٹی آئی نے صوبائی نشست پر ملتان کے مہندر پال سنگھ کو اقلیتی سیٹ دی ہے۔ یہاں اس بات کو پیش نظر رکھا جانا چاہئے کہ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا نہ صرف اعلان کر رکھا ہے بلکہ جو صوبہ محاذ بنا تھا اس کی تحریک انصاف میں شمولیت کے موقع پرا یک معاہدہ بھی ترتیب پایا تھا جس میں پہلے 100 دنوں میں علیحدہ صوبہ کیلئے پیش رفت کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ یہاں کے ناقدین اس بات پر حیران ہیں کہ جو سیاسی جماعت مخصوص نشستوں پر نمائندگی دینے کیلئے تیار نہیں ہے وہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے جیسا بڑا فیصلہ کیسے کرلے گی۔ حیرانی اس لئے بھی ہے کہ تحریک انصاف میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی جو تین بڑی شخصیات موجود ہیں ان کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ جہانگیر ترین ، مخدوم شاہ محمود قریشی اور اسحاق خان خاکوانی آخر اپنے اس کردار کو جنوبی پنجاب میں مخصوص نشستوں کا کوٹہ دینے کیلئے کیوں استعمال نہیں کرسکے حالانکہ الیکشن کے اعدادو شمار اٹھا کر دیکھیں جائیں تو جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کو ڈالے گئے ووٹوں میں خواتین ووٹرز کی شرح مرد ووٹرز سے زیادہ ہے۔ ادھر ملتان سے مخدوم شاہ محمود قریشی کو شکست دے کر اسمبلی میں پہنچنے والے شیخ سلمان نعیم کیلئے مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کے ذرائع آج بھی یہ کہتے ہیں کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ کوئی بھی بن جائے بالآخر اس عہدے پر مخدوم شاہ محمود قریشی کا ہی تقرر ہونا چاہئے۔ گیلانی خاندان کیلئے2018ء کے انتخابات کوئی بہت اچھی خبر نہیں لاسکے۔ امید تھی کہ اور کچھ نہ بھی ہو تو سید یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی کی نشست جیت جائیں گے مگر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ انہوںنے پیپلزپارٹی کی جنوبی پنجاب میں موثر مہم چلائی تھی اور بلاول بھٹو کے ملتان دورہ کے موقع پر وہ کندھے سے کندھا ملا کر ان کے ساتھ چلے تھے۔