راجہ افتخار
وزیراعظم پاکستان عمران خان حلف اٹھانے کے بعد پہلے خطاب میں مسئلہ کشمیر، تحریک آزادی اور7لاکھ افراد کی قربانیوں کا ذکر کرنا بھول گئے، کنٹرول لائن کے دونوں اطراف بسنے والے کشمیریوں نے وزیراعظم مملکت خدادا کی جانب سے لاکھوں قربانیوں کو نظر انداز کرنے پر سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے حکومت پاکستان کی اولین ترجیح مسئلہ کشمیر کا پرامن اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل ہمیشہ رہا ہے گزشتہ71سالوں سے بیان کی حد تک یا سیاسی، اخلاقی، سفارتی حمایت کے روایتی الفاظ کا استعمال ہوتا رہا ہے لیکن عمران خان ان روایتی الفاظ کو بھی بھول گئے۔ گزشتہ20سالوں سے حکومت پاکستان کی ترجیحات سے مسئلہ کشمیر حل ہو چکا ہے۔ 1999میں جب جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا اس وقت سے لیکر 2018 تک جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئیں انہوں نے مسئلہ کشمیر پر جو بات چیت کی وہ سب روایتی اور فرضی طور پر تھی کہ اس سے کشمیری مطمئن رہیں 1999 میں کشمیر کی جو حمایت جاری تھی وہ جاری نہیں رہی کشمیری گزشتہ 15سالوں سے مسلح جدوجہد کے بغیر خالصتاً سیاسی تحریک چلا رہے ہیں گزشتہ 10سالوں سے مجاہدین کشمیر کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ایک گولی بھی فائر نہیں ہوئی اب کشمیریوں نے گولی کے بجائے پتھروں کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے کشمیری مجاہدین کے پاس کوئی اسلحہ بارود نہیں ان کے پاس انڈین آرمی سے چھینا ہوا کچھ اسلحہ ہے لیکن اس کے باوجود کشمیری تحریک آزادی کو جاری رکھے ہوئے ہیں وزیراعظم پاکستان کے پالیسی بیان اور قوم سے خطاب کو کشمیری نامکمل سمجھتے ہیں۔ عمران خان اگر قائد اعظم کو اپنا آئیڈیل لیڈر سمجھتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہے۔
دنیا میں ایسا کوئی انسان موجود نہیں جو شہ رگ کٹ جانے کے بعد بھی زندہ پھرتا ہو کشمیر واقعتاً پاکستان کی شہ رگ ہے پاکستان کی آب نوشی سے لیکر آبپاشی تک کا انحصار کشمیر پر ہے دریائے سندھ، جہلم، راوی، ستلج، بیاس، چناب سمیت درجنوں معاون دریائوں پر ہائیڈرل منصوبہ جات کے علاوہ کھیتوں کی ہریالی غذائی ضروریات ان پانیوں سے پوری ہوتی ہیں ریاست جموں کشمیر کے علاوہ آزاد کشمیر بھی پاکستان کے لئے اہمیت کا حامل ہے آزاد کشمیر میں اس وقت 2500میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے 1400میگاواٹ کوہالہ پراجیکٹ پر کام جاری ہے جاگران ٹوبیٹار، لیپہ، رگن سمیت دیگر منصوبہ جات پر500میگاواٹ کا کام جاری ہے تقریباً 5سالوں بعد آزاد کشمیر سے 4500 میگاواٹ بجلی پاکستان کی توانائی کی ضرویات پوری کرنے کے لئے مہیا ہو گی اگر ملک کا وزیراعظم مسئلہ کشمیر جو سوا کروڑ انسانوں کی زندگی و موت کا مسئلہ ہے نظر انداز کر دے تو پھر ان لوگوں پر کیا گزرے گی جو اپنی زندگی پر کھیل کر پاکستان کا پرچم لہرا کر8لاکھ فوج کو للکار کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں سرینگر اور مظفر آباد میں عمران خان کی کشمیر پالیسی پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم راجہ فاروق بھی مسئلہ کشمیر کا پرامن حل چاہتے ہیں ۔
کشمیری سوچ میں 1999ء کے بعد کافی تبدیلی چلی آ رہی ہے پاکستان کے مفاد کی خاطر کام کرنے والوں اداروں کو اس بات کا علم ہے کہ کشمیر کے اندر ایک سوچ تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے اس وقت مقبوضہ اور آزاد کشمیر میں ایک ایسا نظریہ تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے جو پاکستان کے مفاد میں نہیں دونوں اطراف کے کشمیر ایک نقطے پر اتفاق کرتے ہیں کہ ہندوستان سے آزادی حاصل کرنا ناگزیر ہے لیکن پاکتان سے بھی ناراضگی بڑھ رہی ہے اسکی بنیادی وجہ گزشتہ 20سالوں سے مسلسل کشمیریوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے پاکستان کے کچھ حکمرانوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو خطاب کئے کشمیر کے حوالے سے وہ وہاں تک ہی محدود رہے ان حکمرانوں نے کشمیر پالیسی کو ردی کی ٹوکری میں ڈالے رکھا ہے اس وقت کنٹرول لائن پر حالات شدید کشیدہ ہیں مقبوضہ وادی میں لوگوں کو قربانی کی اجازت نہیں دی گئی نماز عید ادا نہیں ہوئی حریت قیادت پابند سلاسل ہے پلیٹ گن کا استعمال جاری ہے عمران حکومت کو قائم ہوئے بھی دو ہفتے ہو چکے ابھی تک کوئی مذمت تک نہیں ہو رہی پاکستان کی حکومتوں کی بے رخی انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے ہندوستان 8 لاکھ فوج کے جبر سے بھی نہتے کشمیریوں کے اندر جذبہ آزادی کم نہیں کر سکا مقبوضہ ریاست کے اندر پاکستان ڈے 14 اگست اسی طرح منایا گیا جس طرح آزاد کشمیر میں پاکستان کا قومی ترانہ جگہ جگہ پیش ہوا 8 لاکھ فوج کی موجودگی میں بھی کشمیری ڈرے ڈرے دھمکے نہیں دوسری جانب نئی قائم ہونے والی حکومت نے ماضی کی حکومتوں کا تسلسل برقرار رکھا۔
دوسرا آزاد کشمیر کے عوام کو بھی ایک عرصہ سے حکومت پاکستان سے شکایت چلی آ رہی ہے کہ ہم ووٹ کسی کو دیتے ہیں حکومت کوئی اور بنا جاتا ہے لوگوں کے مینڈیٹ کا احترام نہیں ہو رہا ہے لوگوں کو انکا بنیادی حق آزادی سے نہیں مل رہا ہے۔ 1985ء سے 2016ء تک کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ لوگوں نے جس جماعت کو مینڈیٹ دیا حکومت اس کو نہیں بنانے دی مہاجرین مقیم پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کی 12نشستوں کو تحریک آزادی میں اہمیت حاصل ہے لیکن ان 12نشستوں کے ذریعے آزاد کشمیر کی 29نشستوں کے نتائج تبدیل ہو جاتے ہیں جس کو درست کرنے کی ضرورت ہے آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر کی سیاسی اور حریت قیادت کی جانب سے حکومت پاکستان کی جو کشمیر پالیسی ہے اس پر تحفظات پائے جاتے ہیں پاکستان کے مفاد کی خاطر آزاد کشمیر میں کام کرنے والے اداروں کو ان اعلیٰ حکام کو صورت حال سے آگاہ کرنا چاہئے اور ریاست جموں و کشمیر کو وہ اہمیت دی جائے جس کا اعلان قائداعظم نے کیا تھا شہ رگ کو شہ رگ کے طور پر محفوظ رکھنا چاہئے ورنہ جسم میں بے قراری پائے جائے گی۔