خیبر پختونخوا کے عوام نے روایت سے ہٹ کر ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اپنا ووٹ دیکر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا ہے حالانکہ اپوزیشن جماعتیں انتخابات کو ’’الیکشن ‘‘ نہیں ’’ سلیکشن‘‘ قرار دے رہی ہیں ۔ تحریک انصاف کو دوبارہ مینڈیٹ ملنے سے صوبے میں جاری ان کی پچھلی 5سالہ پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہے گا تاہم اب تحریک انصاف کو اپنے منشور پر عملدرآمد کرتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو جلد ازجلد مکمل کرنا ہوگا کیونکہ 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی اور3سال سسٹم کو سمجھنے اور اسے بہتر بنانے میں صرف کر دئیے تھے جس کے باعث صوبائی حکومت اپنے اہداف حاصل نہ کر سکی دوسری جانب صوبائی حکومت کووفاق کی جانب سے عدم تعاون کا بھی شکوہ رہا ‘ مالی مشکلات کے باعث پہلے ساڑھے تین سال میں کوئی میگا پراجیکٹ شروع نہ ہو سکا ‘تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان کشیدگی کے باعث بھی صوبے اور مرکز کے درمیان تعلقات بہتر نہ رہے نہ ہی مرکز نے صوبے کو کوئی بڑا پیکج دیا دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نےمسلم لیگ (ن) کے ساتھ محاذ آرائی کی وجہ سے خیبرپختونخوا کو بری طرح نظرانداز کیا اور سارا وقت احتجاجی سیاست‘ دھرنوں اور مظاہروں میں ہی ضائع کر دیا‘خیبرپختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ یہاں سے تحریک انصاف نے نہ صرف دوسری بار الیکشن جیتا بلکہ اسے پہلے سے بھی زیادہ مینڈیٹ ملاجو اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ خیبرپختونخوا کے عوام نے تحریک انصاف کی کارکردگی کو چانچتے ہوئے انہیں اپنی پالیسیاں جاری رکھنے کیلئے ایک اور موقع فراہم کیا ہے‘خیبرپختونخوا کی نئی حکومت کو درپیش چیلنجز میں سرفہرست تو تعلیم ‘ صحت ‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور بہترین ٹرانسپورٹ کا نظام ہے ‘ تحریک انصاف حکومت احتساب کا دعویٰ کرتی رہی لیکن اس کا اپنا بنایا ہوا احتساب کمیشن ہی عملاً غیر فعال ہوگیا جس کو دوبارہ فعال کرنے یا ختم کرنے کی ضرورت ہے چونکہ قومی احتساب بیورو پہلے ہی کرپشن و بدعنوانی کے خلاف کام کر رہا ہے لہٰذا متوازی نظام کی ضرورت نہیں ‘ پرویز خٹک حکومت نے اپنے آخری سال میں دو بڑے میگا پراجیکٹ شروع کئے جن کو حکومت مکمل نہ کر سکی ‘ جن میں ایک پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ اور سوات ایکسپریس وے ہیں جنہیں تما م رکاوٹیں ختم کرکے جلد ازجلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے ‘صوبائی حکومت کو صوبہ بھر میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کیلئے ایک جامع منصوبہ بندی کرنا ہو گی تاکہ پشاور سمیت تمام بڑے شہروں کے ہسپتالوں پر دبائو کم ہو سکے ‘ سابق حکومت ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی نظام تو نافذ کر چکی ہے جس سے حالات بہتر ہوئے یا نہیں یہ الگ بحث ہے تاہم پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال پرپورے صوبے اور ہمسایہ ملک افغانستان کے مریضوں کا بہت زیادہ بوجھ ہے جسے کم کرنے کیلئے پشاور میں ایک یا دو بڑے ہسپتال تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے اس کے علاوہ دیگر اضلاع کے ہسپتالوں میں تمام سہولیات بہم پہنچا کر مقامی لوگوں کو طبی سہولیات دی جا سکتی ہیں اور مریضوں کی پشاور منتقلی کی بجائے وہیں ان کا بہتر علاج ممکن بنایا جا ئے تو بھی پشاور کے ہسپتالوں پر برجھ کم ہونے میں مدد مل سکتی ہے‘ دیہی علاقوں میں صحت کا شعبہ دگر گوں حالات کا شکار ہے۔نجی ہسپتالوں کے اخراجات عام آدمی کی کمر توڑ دیتے ہیں۔دیہی علاقوں میں نجی سہولتوں کا فقدان ہے۔ پیدائش کے عمل کے دوران زچہ و بچہ کی اموات بھی تو زیادہ تر دیہی علاقوں میں ہوتی ہیں‘گزشتہ حکومت نے علاج معالجے کی غرض سے فروری 2016ءمیں صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیا جو ابتداء میں صرف چار اضلاع مردان‘ ملاکنڈ‘ کوہاٹ اور چترال میں تھا بعد ازاں منصوبے کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اسے پورے صوبے تک وسعت دی گئی ایک اندازے کے مطابق صحت انصاف کارڈ سے صوبے کے مختلف سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں 69ہزار مریض مستفید ہوئے جس پرکل ایک اعشاریہ 65بلین روپے خرچ ہوئے ‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی حکومت بھی صحت انصاف کارڈ پروگرام کو مزید وسعت دے کر اس کے تحت علاج معالجے کی سہولیات بڑھائے تو صوبے کے غریب عوام کو فائدہ ہوگا ‘ تعلیم کا شعبہ بھی مزید بہتری کا حقدار ہے کیونکہ صوبہ بھر میں اب بھی لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں جنہیں اسکولوں میں لانا نئی صوبائی حکومت کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں‘ بیروز گاری اور مہنگائی کو کنٹرول کرنا بھی صوبائی حکومت کا مینڈیٹ ہے لہٰذا حکومت کو اس معاملے میں بھی گہری دلچسپی لینی ہو گی ‘ صوبہ بھر میں عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور گندا پانی پینے سے عوام طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں‘ حکومت صاف پانی کی فراہمی کیلئے بڑے بڑے پراجیکٹ شروع کرے تو پانی کی فراہمی کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے ‘ واٹر فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب کے منصوبے بھی شروع کرنا ہونگے ‘ مسائل بہر طور موجود ہیں اور غیر ملکی قرضے بھی آسمان کو چھو رہے ہیں۔ انتخابی سیاست کے خوش کن وعدوں اور عمل کی دنیا کے معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ انتظار کرنا ہوگا کہ نئی حکومت مسائل سے کیسے عہدہ برآ ہوتی ہے۔