ملک میں سیاسی ہلچل کے بعد انتخابات کے نتیجے میں ٹھہرائو آگیا ہے اور نئی حکومت قائم ہوگئی 22 سال سے شروع ہونے والی جدوجہد 22 اگست کو حتمی مراحل میں داخل ہوگئی۔ عمران خان صاحب دنیا کے پہلے کرکٹر وزیراعظم بن گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ کی شاندار کامیابی کو دنیا بھر میں اچھی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ عمران خان نے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا مگر اس میں ناکامی کے بعد انہوں نے جدوجہد شروع کر دی اور مضبوط قوت ارادی کے باعث مرد آہن بن کر ابھرے اور اپنی بھرپور جدوجہد کے باعث مسند اقتدار میں پہنچ گئے۔ پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ (ن) والوں کو اپنی شکست کے اسباب پر کسی ادارے پر الزام لگانے کی بجائے غور کرنا چاہئے کیا انہوں نے اپنی حکومت کے دور میں غریبوں کو ریلیف دیا کیا وہ اپنے اراکین اسمبلی کو عزت و احترام دیتے تھے ملاقات کیلئے ترسنے والے اراکین قومی اسمبلی کو ملاقات کا شرف بخشا حتیٰ کہ میاں نواز شریف کی کچن کیبنٹ کے وزراء اراکین اسمبلی کو ذاتی ملازموں کی طرح ٹریٹ کرتے تھے یہی وجہ ہے انہوں نے عمران خان کے میدان میں آنے کو غنیمت سمجھا اور موقع ملتے ہی اڑ گئے اور تحریک انصاف میں چلے گئے اور انتخابات میں کامیاب بھی ہوئے نومنتخب وزیراعظم عمران خان صاحب کو مسلم لیگی قیادت کے غرور وتکبر سے سبق سیکھنا ہوگا عمران خان کی حکومت تو قائم ہوگئی ہے مگر اپوزیشن کے ارکان کی تعداد بھی خاصی زیادہ ہے اگرچہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے پہلے ہی روز اپوزیشن کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور ان کی شدت میں روز بروز اضافہ ہی ہوگا کمی نہیں۔ آصف علی زرداری بہت شاطر سیاستدان ہیں اور وہ اپنے پتے بہت سوچ سمجھ کر کھیلتے ہیں۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ میاں شہباز شریف کی قیادت میں اپوزیشن عمران خان کی حکومت کو گرا دے یا اسے کام کرنے کا موقع نہ دیں اور پھر مسلم لیگ (ن) ایک دفعہ پھر ابھر کر آجائے اور شہباز شریف چھا جائیں آصف علی زرداری اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو کو آئندہ وزیراعظم بنانے کیلئے کوشاں ہیں یہی وجہ ہے آصف علی زرداری صاحب نے میاں شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے انتخابات میں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا اور پیپلز پارٹی لاتعلق رہی ایک طرف تو شہباز شریف کو نیچا دکھا دیا دوسری طرف عمران خان کو مثبت پیغام دیا کہ ہم آپ کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے اور کام کرنے کا پورا موقع دیں گے۔
اب صدر کے انتخاب میں بھی پیپلز پارٹی نے چوہدری اعتزاز احسن کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جسے مسلم لیگ ن نے اس بناء پر قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ چوہدری اعتزاز احسن پانامہ کیس اور نواز شریف کے کیسوں میں زبردست تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں چنانچہ مولانا فضل الرحمان سے افہام وتفہیم کرانے کی کوشش کی اور میاں شہباز شریف کو قائل کرنے کی کوشش کی مگر انہیں کامیابی نہ ہوئی مگر پیپلز پارٹی کی قیادت اعتزاز احسن کے نام پر ڈٹ گئی اور ان کا موقف ہے شہباز شریف صاحب نے آصف علی زرداری کے خلاف کیا کبھی زبان استعمال نہیں کی محض تنقید کرنے کی وجہ اعتزاز احسن کو مسترد کرنا درست نہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن بظاہر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان مفاہمت کراتے رہے اور پچ کے دونوں طرف کھیلتے رہے مگر اچانک انہوں نے صدارت کے لئے اپنا نام پیش کر دیا اور کاغذات بھی داخل کر دیئے مسلم لیگ ن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے انہیں اپنا امیدوار نامزد کر دیا ، مسلم لیگ ن نے اگرچہ فضل الرحمٰن کو کھڑا کر کے ترپ کا پتہ پھینکا مگر اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے اپوزیشن کے اتحاد میں رہی سہی کسر بھی ختم ہو جائے گی اور اپوزیشن کا شیرازا بکھرنے سے تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کے صدر بننے کے راہ میں حائل رکاوٹیں بھی ختم ہو گئیں۔
ملک وقوم کے لحاظ سے یہ بات خوش آئند ہے کہ تحریک انصاف کا وزیراعظم اسپیکر ڈپٹی اسپیکر اور صدر منتخب ہوگیا ہے تاہم سینٹ میں حکومت کو مشکلات کا سامنا رہے گاتحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہیں نہ ہی سینٹ میں اکثریت ہے حکومت کو تمام تر اعتراضات اور الزامات کو بالائے طاق رکھ کر پیپلز پارٹی کی مدد درکار ہوگی اور پیپلز پارٹی بھی مائل بہ کرم ہے ہمیں عمران خانصاحب سے کرپشن کی کوئی توقع نہیں مگر انہیں اپنی کابینہ وزرائے اعلیٰ اراکین اسمبلی و سینٹ اور بیوروکریسی پر کڑی نظر رکھنی ہوگی۔ یہ بات طے ہے عمران خان کو دولت سے کوئی دلچسپی نہیں شاید لوگوں کو علم نہیں جب جمائما نے عدالت کے ذریعے طلاق کا تقاضا کیا تو برطانوی قانون کے مطابق طلاق کے وقت جمائمہ کی آدھی دولت اور جائیداد کے مالک عمران خان بن سکتے تھے مگر عمران خان نے اربوں روپے کی دولت لینے سے انکار کر دیا اور بچے بھی جمائما کے حوالے کر دیئے اللہ کرے وہ آئندہ بھی کرپشن سے دور رہیں اگر عمران خان کے دور میں بھی کرپٹ مافیا نے اپنی گرفت مضبوط کر لی تو یہ ملک وقوم کیلئے تباہ کن ہوگا۔ حکومت کیلئے مشکلات بے انتہاء ہیں مسائل کا سمندر عبور کرنا ہے قرضوں کی واپسی مہنگائی کو کنٹرول کرنا بیروزگاری میں کمی لانا کرپشن کا خاتمہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی دہشت گردی کا خاتمہ دفاع کو مضبوط بنانا صحت و تعلیم کی سہولتوں میں اضافہ کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔
عمران خان صاحب کا طرہ امتیاز ہے وہ باتیں سب کی سنتے ہیں مگر فیصلہ اپنی مرضی کا کرتے ہیں چند وزارتیں ایسی ہیں جن کا فیصلہ توقعات کے عین مطابق کیا گیا ان میں وزارت خزانہ ، خارجہ ، اطلاعات اور ریلوے وغیرہ شامل ہیں وزیر خزانہ اسدعمر کا تو بہت پہلے اعلان کر دیا گیا تھا جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی وزارت توقعات کے عین مطابق ہے شاہ محمود قریشی وزارت خارجہ کا تجربہ رکھتے ہیں اور امید ہے وہ وزارت خارجہ کو درست طریقے سے چلائیں گے جبکہ فواد چوہدری بھی میڈیا کے حوالے سے بہت معلومات رکھتے ہیں۔ توقع ہے کہ وہ وزارت اطلاعات میں بھی کرپشن کو روکنے پر خصوصی توجہ دیں گے جعلی لوگوں کو فنڈز دینے کی روش کو کنٹرول کریں گے۔ بیرونی ممالک بالخصوص ایران اور سعودی عرب ترکی نے پاکستان کی نئی حکومت کو خصوصی اہمیت دی ہے جبکہ بھارت کی طرف سے بھی پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے اشارے ملے ہیں ایرانی صدر حسن روحانی نے فون کرکے مبارکباد دی اور دورے کی دعوت بھی دی اس طرح سعودی عرب کے شاہ سلیمان اور ولی عہد نے بھی فون کیا اور مبارکباد دی اختلافات کو مزید مستحکم کرنے پر زور دیا توقع ہے کہ عمران جلد ہی اپنی اہلیہ کے ہمراہ سعودی عرب کا دورہ کریں گے اور عمرہ بھی ادا کریں گے ۔ بھارت پاکستان سے جنگ کر کے اپنا جانی و مالی نقصان نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے پانی روکنے دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافہ نہ کر کے اورپوری دنیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے بھارت کو علم ہے کہ اگر پاکستان سے جنگ ہوئی تو پاکستانی فوج بہت تجربہ کار اور تیار ہے اس کے پاس میزائیل سسٹم تباہ کن ہے اور وہ ہمارا بھاری جانی نقصان کریگا بھارت نے پاکستان کے دریائوں میں پانی چھوڑنے کی بجائے ڈیم بنانے شروع کر دیئے ہیں بھارت اب تک ساڑھے چارہزار سے زائد ڈیم بنا چکا ہے پاکستان کے دریا خشک ہورہے ہیں۔ نواز شریف حکومت نے اس سنگین صورتحال کے حوالے سے پالیسی بنانے کی بجائے اورنج ٹرین اور میٹرو جیسے منصوبوں پر کھربوں روپے خرچ کر ڈالے اور پاکستان کو قرضوں کے بوجھ نیچے جکڑ دیا۔ ان مشکل حالات کو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار صاحب نے محسوس کیا اور دو ڈیم بنانے کا اعلان کیا ان کی اپیل پر ڈیم بنانے کیلئے اربوں روپے جمع ہوچکے ہیں مگر ابھی بھی ڈیم بنانے کیلئے مطلوبہ رقم اکٹھی نہیں ہوئی ہماری چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہےا ن کی بطور چیف جسٹس مدت کم رہ گئی ہے وہ قرضوں کی واپسی اور اس طرح کے دوسرے کیسوں کو جلد از جلد نمٹائیں اور لوٹی ہوئی دولت واپس کروائیں، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس عطا بندیال کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔ پاکستان میں ایسی ایسی شخصیات ہیں اگر ان میں قومی جذبہ امڈ آئے تو وہ اکیلے ڈیم بنانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے مختلف کیسوں میں از خود نوٹس لینے بیورو کریسی اور لوٹ مار کرنے میں ڈر خوف ضرور پیدا ہوا ے نجانے شریفوں کی حکومت نے اورنج ٹرین میٹرو بنانے کو کیوں زیادہ اہمیت دی اگرکمیشن کا مسئلہ تھا تو وہ ڈیم بنانے والی کمپنی یا کنٹریکٹر سے بھی کمیشن لے سکتے تھے مگر جیسا چیف جسٹس نے نوٹس لیا تو پتہ چلا کہ تمام ٹھیکے ایک ہی مند پسند ٹھیکیدار کو دیئے گئے کاش کچھ تو خوف خدا ہوتا۔