تجمل کرمانی
سردار عثمان احمد بزدار کا وزیر اعلیٰ پنجاب بننا ابھی تک معمہ بنا ہوا ہے۔ وہ ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور پنجاب اسمبلی کا پہلی بار رکن بننے کے بعد اقتدار کا ہما ان کے سر پر بیٹھ گیا۔ سردار عثمان وزیر اعلیٰ کے منصب تک کیسے پہنچ گئے؟ ان کی شخصیت اور وزارت اعلیٰ تک پہنچنے کے اسرار سمجھنے کے لئے ان کے خاندان اور آبائی علاقہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ کا قبائلی علاقہ بزدار قبیلہ کا گڑھ ہے، اس قبیلہ نے تحریک پاکستان میں فیصلہ کن کردار ادا کیا، ان کے ابائو اجداد میں شامل سردار عطا محمد بزدار 1946میں قانون ساز اسمبلی پنجاب کے ایم ایل اے کامیاب ہوئے اور قانون ساز اسمبلی میں قیام پاکستان کے حق میں آخری ووٹ سردار عطا محمد بزدار نے دیا تھا جس وجہ سے انہیں قائد اعظم کے قریبی ساتھی ہونے کا شرف حاصل ہوا اور قائد اعظم نے ڈیرہ غازی میں ان سے ملاقات کی تھی۔ سردار عطا محمد بزدار کی بڑی بیٹی خالدہ بزدار اور چھوٹی بیٹی شائستہ بزدار پیپلزپارٹی شعبہ خواتین پنجاب کی رہنما لاہور میں مقیم اور سماجی کاموں کے لئے زندگی وقف کر چکی ہیں۔ سردار عثمان بزدار کے دادا سردار دوست محمد خان، بزدار قبیلہ کے چیف اور 1970کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے علاقہ میں سب سے بڑے مخالف اور جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر نذیر شہید کے پینل کے ساتھ بطور امیدوار صوبائی اسمبلی الیکشن میں حصہ لیا، ڈاکٹر نذیر شہید جیت گئے تاہم سردار دوست محمد کامیاب نہ ہو سکے، سردار دوست محمد کے بعد ان کے بیٹے سردار فتح محمد بزدار والد کے جانشین بن گئے، وہ جامعہ کراچی سے ایم اے سیاسیات اور گورنمنٹ ہائی اسکول بارتھی میں ایس ایس ٹی استاد رہ چکے ہیں تاہم سیاست کی وجہ سے ملازمت سے استعفیٰ دے کر ممبر ضلع کونسل ڈیرہ غازی خان سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور پھر 1983-84 میں ضیاء الحق کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے،1985کے غیر جماعتی انتخابات میں رکن پنجاب اسمبلی کامیاب ہو کر حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے، سردار فتح محمد بزدار دوسری بار پرویز مشرف حکومت میں 2002 میں مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر رکن پنجاب اسمبلی کامیاب ہوئے اور 2008میں تیسری بار مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر کامیابی کے بعد پنجاب اسمبلی میں فارورڈ بلاک میں شامل ہو کر وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حمایت کا اعلان کر دیا اور اس وفاداری کی وجہ سے 2013میں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ دیا گیا تاہم انھوں نے بڑھاپے کے باعث انتخابی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے کر اپنی جگہ پی پی 241ڈیرہ غازی خان صوبائی اسمبلی پنجاب کے لئے بیٹے سردار عثمان بزدار کو امیدوار نامزد کر دیا لیکن انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار تونسہ شریف کے سجادہ نشین خواجہ نظام المحمود کامیاب ہو گئے۔
سردار عثمان احمد بزدار 1969میں تونسہ کے گائوں بارتھی میں پیدا ہوئے، بہائو الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے سیاسیات اور ایل ایل بی کیا، ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے رکن بھی ہیں تاہم زراعت کے پیشہ سے منسلک اور عملی زندگی کا بیشتر وقت سیاست میں گزرا ہے۔ پرویز مشرف حکومت کے دوران 2001 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحصیل ناظم تونسہ سے سیاست کا آغاز کیا اور 2006میں دوبارہ تحصیل ناظم کامیاب ہو گئے، بعدازاں ضلع کونسل ڈیرہ غازی خان کے رکن بھی رہے، اس دوران نیپا، مینجمنٹ اینڈ پروفیشنل ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب، لمز یونیورسٹی اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ امریکہ کے تربیتی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا، سردار عثمان احمد بزدار مسلم لیگ ن سے علیحدگی اختیار کر کے رواں سال عام انتخابات میں آزاد امیدوار الیکشن کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ اس دوران مسلم لیگ ن کے چھ ارکان قومی اسمبلی نے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر کے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ قائم کر دیا جس کا سرپرست سابق وزیر اعظم بلخ شیر مزاری اور صدر مخدوم خسرو بختیار کو بنایا گیا۔ صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کے جنرل سیکرٹری طاہر بشیر چیمہ اور سردار فتح محمد بزدار کے درمیان مسلم لیگ ق حکومت میں سیاسی تعلقات تھے، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ قائم ہوا تو انہی تعلقات کی بنیاد پر دونوں رہنمائوں کے سیاسی رابطوں کا دوبارہ آغاز ہو گیا اور جنوبی پنجاب رابطہ مہم کے دوران 27اپریل کو طاہر بشیر چیمہ، رانا قاسم نون، باسط بخاری اور سمیع اللہ چودھری پر مشتمل وفد سردار فتح محمد بزدار سے یونین کونسل مبارکی میں ملاقات کے لئے پہنچا جہاں سردار فتح محمد بزدار، ان کے بیٹوں سردار عثمان احمد بزدار اور جعفر خان بزدار چیئرمین یونین کونسل مبارکی نے بزدار ہائوس میں جلسہ عام کر کے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ جہانگیر ترین کی سفارش پر سردار عثمان احمد بزدار کو ٹکٹ جاری ہو گیا، الیکشن ہوئے تو سردار عثمان احمد بزدار 26897ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ تحریک انصاف الیکشن منشور میں صوبہ جنوبی پنجاب قائم کرنے کا وعدہ کر چکی تھی جس کے لئے جنوبی پنجاب کے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے وہاں سے وزیر اعلیٰ لینے کا فیصلہ کیا گیا، جہانگیر ترین کو مخدوم ہاشم جواں بخت اور شاہ محمود قریشی کو حسنین بہادر دریشک کے ناموں پر اختلاف پید ا ہو گیا، عمران خان نے دونوں ناموں کو مسترد کر دیا، جہانگیر ترین نے لودھراں میں اپنی رہائش پر سردار عثمان احمد سے ملاقات کر کے ان کا نام پیش کیا جس کو عمران خان کی جانب سے منظور کر لیا گیا۔ سردار عثمان احمد بزدار کے خلاف پولیس، ایف آئی اے، انٹی کرپشن، نیب انکوائریوں کی مکمل جانچ پڑتال کرکے انہیں کلیئر کر دیا گیا، سردار عثمان احمد بزدار الیکشن جیت کر حلف اٹھانے لاہور پہنچے تو اپنی رہائش نہیں تھی اور جوہر ٹائون میں دوست کے دو کمروں کے فلیٹ پر قیام کیا، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چار دنوں بعد وزیر اعلیٰ پنجاب بن جائیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں 19اگست 2018کو وزیر اعلیٰ کا الیکشن ہوا تو سردار عثمان احمد بزدار 186ووٹوں سے جیت گئے ۔ سردار عثمان احمد بزدار نے تحریک انصاف میں شمولیت سے وزیر اعلیٰ تک سفر صرف تین ماہ 22دنوں کے مختصر ترین وقت میں طے کیا۔ وہ کہتے ہیں عمران خان نے انہیں پسماندہ علاقے کی وجہ سے منتخب کیا تاہم سردار عثمان احمد بزدار علاقہ کے دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے والد سردار فتح محمد، بزدار قبیلہ کے چیف ہیں جو ڈیرہ غازی خان، تونسہ قبائلی علاقے، سندھ اور بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے، ڈیرہ غازی خان میں بزدرار قبیلہ آبادی کے لحاظ سے لغاری، کھوسہ، قیصرانی سے بڑا ہے، بتایا جاتا ہے کہ سردار فتح محمد بزدار نے میاں چنوں ضلع خانیوال میں 10مربعہ زرخیز اراضی ٹھیکہ پر دے رکھی ہے ، 10مربعہ زرعی اراضی تونسہ میں ہے جبکہ دو ہزار ایکڑ بنجر اراضی تونسہ کے قبائلی پہاڑوں میں ہے، سردار عثمان بزدار کی ڈیرہ غازی خان، تونسہ، ملتان میں تین کوٹھیاں اور اثاثوں کی مالیت 14کروڑ روپے بتائی جاتی ہے۔ ان کی اہلیہ گورنمنٹ انٹر کالج ماڈل ٹائون ڈیرہ غازی خان میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، ان کی اولاد میں تین بیٹیاں ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب کے پانچ بھائی اور پانچ بہنیں ہیں، بھائی عمر بزدار بارڈر ملٹری پولیس جو قبائلی علاقوں میں پولیس کے فرائض ادا کرتی ہے اس میں جمعدار (انسپکٹر)، جعفر خان چیئرمین یونین کونسل مبارکی، ایوب، طاہر اور پانچویں بھائی زمینداری سے وابستہ ہیں۔ سردار عثمان احمد بزدار کا علاقہ بارتھی پہاڑوں پر واقع ہے، دور دراز اور دشوار گزار ہونے کی وجہ سے وہاں عوام محرومیوں کا شکار ہیں حتیٰ کہ بجلی بھی موجود نہیں اور سولر بجلی استعمال ہوتی ہے، انسان اور حیوان ایک گھاٹ میں پانی پیتے ہیں، اس علاقہ کو پاکستان بھر میں محرومیوں کا دارالخلافہ کہا جاتا ہے، سڑکیں، پانی، بجلی، صحت، تعلیم کی سہولیات موجود نہیں اور مقامی آبادی پتھر کے زمانے میں رہتی ہے، آج بھی وہاں کھیتی باڑی کے لئے بیلوں کے ذریعے ہل چلایا جاتا ہے الغرض ہر طرف زندگی ویران اور پریشان ہے لیکن یہ حال پورے جنوبی پنجاب میں ہے جہاں زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ سردار عثمان احمد بزدار، ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری ، صوبائی وزیروں میں مخدوم ہاشم جواں بخت، حسنین بہادر دریشک، محسن لغاری، سمیع اللہ خان سمیت دیگر کو اہم قلمدان سونپے ہیں، مرکز میں شاہ محمود قریشی، طارق بشیر چیمہ، مخدوم خسر بختیار کو وزاتیں سونپی گئی ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان وزارتوں سے جنوبی پنجاب کی محرومیاں ختم ہوں گی؟ کیا جنوبی پنجاب الگ صوبہ بن جائے گا؟ سرائیکی وسیب کے عوام اس حوالے سے غیر مطمئن ہیں کیونکہ اصل طاقت اسلام آباد اور لاہور میں بیورو کریسی کے ہاتھوں میں ہے جو جنوبی پنجاب کو اپنی کالونی رکھنا چاہتی ہے، ملتان میں سول سیکرٹریٹ کا ذیلی دفتر اور چند ڈپٹی سیکرٹریوں کو ٹرانسفر کر کے عارضی بندوبست ہو گا لیکن صوبہ جنوبی پنجاب کا خواب پورا نہیں ہو گا۔