• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سیرتِ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے چندتاریخ ساز نقوش

مولاناعبد اللہ بن مسعود

یوں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے کئی پہلو ہیں، ان کی حیاتِ طیبہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو کئی سبق انسان کو حاصل ہوسکتے ہیں،ایک سبق جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں بہت نمایاں ہے، اُس کے کچھ مظاہر سپردِ قرطاس کیے جاتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ایک ایک سطرپر مجھ سمیت ہم سب کو عمل کی نیت سے پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وہ سبق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے آگے سرِتسلیم خم کردینا ، میری پسند ، میری خواہش ، میری چاہت کے بجائے میرے رب کی پسند ، میرے رب کی خواہش ، میرے ر ب کی چاہت کیا ہے ؟ اُسے ڈھونڈنا اور اُسی پر بخوشی عمل کرنا یہی عبدیت اور بندگی ہے اور عبدیت اور بندگی تمام انبیاء کا بہت خاص واعلیٰ وصف ہے ۔غرض یہ کہ اللہ اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا جو بھی حکم سامنے آئے، اُسے بلا چوں چرامان لینااور عمل کرلینا، خواہشات اور چاہتوں سے ٹکراؤہوتو انہیں قربان کرکے اللہ اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو ترجیح دینا اور اسی میں اپنی دنیا وآخرت کی کامیابی اور سعادت سمجھنا یہ وہ درس ہے جو ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں جابجا نظر آئے گا،ملاحظہ فرمائیے:

۱۔حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ اور آتشِ نمرود :حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم بتوں کی پوجا کرتی تھی ، آپ انہیں سمجھاتے ، منع کرتے ،ایک موقع پر جب قوم کے لوگ کہیں گئے ہوئے تھے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے بت توڑ ڈالے، قوم کو بعد میں جب معلوم ہواکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا ہے تو انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا، آگ میں ڈالنے کی تیاریاں شروع ہوگئیں،آتش نمرود دہکائی گئی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں جانا قبول کیا،لیکن توحید کے راستے سے پیچھے نہیں ہٹے، بتوں کی مخالفت اورتوحید کا پرچار کرنا نہیں چھوڑا۔

۲۔گھر سے جدائی :حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر نہ صرف بت پرست تھے ،بلکہ بت تراشی بھی کیا کرتے تھے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انتہائی نرمی ، محبت اور مکمل ادب کی رعایت رکھتے ہوئے اپنے والد کو سمجھایا، لیکن ان کے والد نہ مانے بلکہ انتہائی سختی کے ساتھ اپنے بیٹے کو جواب دیا اور ہمیشہ کے لیے اپنے سے دور کردیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باپ کی جدائی، گھر کی جدائی برداشت کی، لیکن اللہ کے حکم کو نہیں توڑا، توحید پر ثابت قدم رہے۔

۳۔اہل وعیال کو لق ودق صحرا میں چھوڑنا:حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہواکہ اپنی بیوی حضرت ہاجرہؑ اور صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ مکرمہ میں چھوڑکر ملکِ شام واپس آجائیں،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر جھکادیا، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بیوی بچوں کی جدائی، انہیں تنہا بے آ ب وگیا مقام پر چھوڑنے کی قربانی کو بخوشی قبول کیا، اللہ تعالیٰ سے بیوی بچوںکے لیے دعا کرکے اُس کے بھروسے پراُنہیں چھوڑکر ملکِ شام تشریف لے آئے، حکمِ ربانی کی تعمیل میں ذرابھی ہچکچاہٹ نہیں فرمائی ۔

۴۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا: حضرت اسماعیل علیہ السلام کچھ بڑے ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کردیجیے ، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے ایک سخت آزمائش تھی، اکلوتا بیٹا...، ارمانوں سے مانگا ہوا....،پرورش کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد اب وقت آیا تھا کہ وہ قوت ِبازوبن کر باپ کا سہاراثابت ہو لیکن حکمِ الٰہی کے سامنے باپ بیٹے دونوں نے تاویلات کے بجائے سَرِ تسلیم خم کردیااور بخوشی قربانی دینے کے لئے تیار ہوگئے اور راہ ِ الٰہی میں سرخروہوئے،اللہ تعالیٰ کو محض امتحان لیناہی مقصود تھا اس لئے بیٹے کی جگہ اللہ تعالیٰ نے دنبہ بھیج دیا اور بیٹے کے بجائے اس کی گردن پر چھری چلی۔

سیدناابراہیم علیہ السلام کے خاندان میں ایک بات یہ بھی غور کرنے کی ہے۔ جومیں نے اپنے والدِمحترم سے سیکھی ،اللہ تعالیٰ انہیں صحت وعافیت عطا فرماکر اپنے دین کی خدمت بسہولت نصیب فرمائے۔کہ ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے میں تنہا اوراکیلے نہیں ہیں،بلکہ ان کی بیوی اور بیٹے بھی ان کے بازو بنے ہوئے ہیں ، شوہر، بیوی، بچے سب مل کر اللہ کی راہ میں قربانی دے رہے ہیں،پورا خاندان ہم ذہن اوریکجا ہے، بیوی کو تنہا چھوڑ کر جارہے ہیں،وہ صابرہ خاتون اللہ کے حکم کے آگے سرجھکائے ہوئے ہیں،بیٹے کو ذبح کرنے لے جارہے ہیں ، بیٹا خوشی خوشی باپ کا ساتھ دے رہاہے سب نے مل کر قربانی دی، اللہ نے ان کے پورے خاندان کو چمکا دیا، ان کی ایک ایک ادا سعی ، رمی ، قربانی کو قیامت تک کے لوگوں کے لئے جاری کردیا ۔ماہِ ذی الحجہ ہمیں خاندان ابراہیمی کی یاد دلاتا ہے۔

ہم ابھی یہ نیت کرلیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خاندان سے جو درج ِذیل سبق حاصل ہوئے ان پر دل وجان سے عمل کریں گے:

۱۔ گھر میں اگر والد دین کی بات کررہے ہیں تو اولاد اور والدہ مل کر ان کے بازو بن جائیں ، بیوی دین پر عمل کررہی ہے تو شوہر اور بچے بھی اس کا ساتھ دیں ، شوہر اگر اللہ کو راضی کرنے میں لگا ہوا ہے تو بیوی اور بچے بھی اس کے ساتھ شامل ہوجائیں ، اولاد اگر دین کی راہ پر چل رہی ہے تو والدین بھی ان کی حوصلہ افزائی کریں ، غرض خاندانِ ابراہیمی کی طرح پورا گھرانہ یک ذہن ہوکر اللہ کو راضی کرنے میںلگ جائے ، پھر پورے گھرانے پر رحمت الٰہی کی برسات شروع ہوجاتی ہے ، اللہ کی مددمتوجہ ہوجاتی ہے،اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔

۲۔جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے ہر حکم کے آگے فوراً سر جھکا دیا، ہم بھی یہ ٹھان لیں کہ اللہ اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا جو بھی حکم ہمارے سامنے آئے گا ،ہم اُسے بخوشی قبول کریں گے، شادی بیاہ غرض ہر خوشی غمی کے موقع پر رسم ورواج کے بجائے اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺکے حکم کو ترجیح دیں گے ، اسلام کی تعلیمات میں ہی اپنی دین ودنیا کی سعادت سمجھیں گے،یہ بات حقیقت ہے کہ جو دین کو اپنا تا ، سنتوں پر عمل کرتاہے اللہ تعالیٰ اُس پر دنیاوی واخروی دونوں خوشیوں کے دروازے وا کردیتا ہے، اگرچہ وقتی پریشانیاں ومصائب کا سامنا کرنا پڑے۔

۳۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جیسے ہر سخت سے سخت حکم کو بخوشی سینے سے لگایا، ہم بھی اللہ کے منادی کی آواز سنتے ہی اپنی نیند کو قربان کرکے فجر کی نماز کے لیے نکل کھڑے ہوں ، فجر کی نماز کو بالخصوص کسی بھی حالت میں قضانہیں ہونے دیں گے، مسجد میں جاکر پہلی صف میں نماز ادا کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے ،یہ تھوڑی سی قربانی ہماری دین ودنیا دونوں کو سنوار دے گی ، فجر کا وقت ایسا بابرکت وقت ہے ،جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی ہے ، ایسے وقت میں سونے سے رزق میں بے برکتی، وقت میں بے برکتی اور سارے دن سستی رہتی ہے، یادرکھیں !یہ غفلت ،سستی ،کاہلی اور بے وقت سوتے رہنا یہ ہمارے دشمن ہیں،اس سے انسان کی صحت بھی برباد ہوتی ہے۔

اس لیے یہ معمول بنالیں کہ اللہ سے دعا مانگنے کے ساتھ رات جلدی سوکر صبح فجر کی نماز سے پہلے اٹھیں گے ، اور فجر کی نماز مسجد میں ادا کرکے اپنے دن کا آغاز کریں گے، ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ ہمارے دن میں غیر معمولی برکت پیدا فرمادے گا ۔

خدائے بزرگ وبرترسے دعا ہے کہ وہ مجھ سمیت ہم سب کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مبارک سیر ت پر عمل کرنے والا ، اور اپنے عظیم دین کی تعلیمات کو ہر موقع پر ترجیح اور فوقیت دینے والا بنادے ۔(آمین)

تازہ ترین
تازہ ترین