یہ فلمی صنعت کے سنہرے دور کی بات ہے، جب اس صنعت کے تمام شعبہ جات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ، ادبی ذوق کے حامل، تہذیب و تمدن سے آراستہ ہنر مند اور فن کار بڑی تعداد میں کام کرتے تھے، جنہوں نے اپنی فلموں کے ذریعے سماجی اور ثقافتی زندگی پر نہایت گہرے اثرات قائم کیے۔ اس دور کی فلمی شخصیات اب ماضی کی یادیں بن کر رہ گئیں ہیں، لکین اداکارہ حُسنہ کا نام ذہن میں آتے ہی سلور اسکرین کی ان حسین یادوں کے دریچے واہ ہوجاتے ہیں، جب شکل و صورت ، ناز و انداز ، ایک ’’جان بہار‘‘ اداکارہ حسنہ کے نام سے فلمی دنیا میں متعارف ہوئیں۔ جمعہ 30مئی 1958کو ریلیز ہونے والی فلم ’’جانِ بہار‘‘ میں بہ طور چائلڈ اسٹار انہوں نے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے اس بچی کو پہلی بار اپنے ایک دوست آفتاب علی خان کے گھر میں دیکھا، جو اس بچی کے والد تھے۔ یہ خوب صورت بچی جس کا اصل نام نُدرت جہاں تھا، شوکت حسین رضوی نے اسے حُسنہ کا نام دیا اور اپنی فلم ’’جانِ بہار‘‘ میں اداکارہ مسرت نذیر اور اداکار سدھیر کی بیٹی کے کردار میں کاسٹ کرلیا۔ اس فلم کے بعد وہ ہدایت کار جعفر بخاری کی فلم ’’بھروسہ‘‘ اور ہدایت کار ایم اے خان کی فلم ’’سوسائٹی‘‘ میں کم سن بچی کے کرداروں میں آئیں۔ ہدایت کار خلیل قیصر نے جب دیکھا کہ حُسنہ کی عمر اب چائلڈ اسٹار سے بڑھ کر ہیرئوئن کے قابل ہوگئی ہے، تو انہوں نے اپنی فلم ’’ناگن‘‘ میں اسے پہلی بار سائیڈ ہیروئن کا کردار سونپا۔ رتن کمار اور نیلو اس میں لیڈنگز رولز کررہے تھے۔ اس فلم میں اس دور کے مطابق حُسنہ پر ایک بولڈ گانا فلمایا، اس گیت نے ان کی شہرت کو فلم بینوں میں مقبول کیا۔ محبت، ساتھی، خیبر میل، سلطنت، تین پھول، لگن، ایک منزل دو راہیں، اونچے محل، ہزار داستان میں بہ طور سائیڈ ہیروئن نظر آئیں۔ حُسنہ پہلی بار بہ طور ہیروئن پنجابی فلم ’’رانی خان‘‘ میں کاسٹ ہوئیں۔ اداکار اکمل اس فلم کے ہیرو تھے۔ یہ فلم 1960میں ریلیز ہوئی۔ ایم جے رانا اس فلم کے ہدایت کار تھے۔ 1961میں ہدایت کار خلیل قیصر کی سپر ہٹ فلم ’’عجب خان‘‘ میں وہ اداکار سدھیر کے مقابل ہیروئن کے روپ میں پسند کی گئیں۔
اسی سال انہوں نے اپنی ہوم پروڈکشن کے تحت فلم ھابو بنائی ،جس میں ان کے مدِ مقابل اداکار حبیب نے ہیرو کا کردار کیا تھا۔ اس فلم میں انہوں نے جنگلی دوشیزہ کا کردار خوب صورتی سے نبھایا۔ اس سال ریلیز ہونے والی فلم ’’جادوگر‘‘ میں وہ اداکار کمال کے مقابل ہیروئن آئیں۔ اس فلم کی تکمیل کے دوران کمال اور حُسنہ میں کسی بات پر جھگڑا ہوگیا تھا۔ حُسنہ نے کمال پر اپنے سابقہ خاوند رشید بھٹی کے ذریعے حملہ بھی کروایا تھا۔ حُسنہ کا نام ایک زمانے میں سردار رند اور اداکار محمد علی کے ساتھ بھی بہت مقبول ہوا۔ عجب خان کی کام یابی کے بعد خلیل قیصر نے ان کو اپنی دوسری فلم ’’شہید‘‘ میں روایتی ہیروئن کا کردار سونپا۔ اداکار اعجاز اس فلم کے ہیرو تھے، جب کہ کہانی کی ہیروئن مسرت نذیر تھیں۔ یہ فلم 1962میں ریلیز ہوئی۔ اس سال آغا حسینی کی کاسٹیوم فلم ’’زرینہ‘‘ میں وہ ٹائیٹل رول میں آئیں۔ عورت ایک کہانی، تماشا، میں بہ طور ہیروئن کے بعد وہ 1966میں ریلیز ہونے والی تاریخی فلم ’’الہلال‘‘ میں اداکار درپن کے مقابل ہیروئن آئیں۔ یہ فلم بے حد کام یاب رہی۔ سرحد، کون کس کا، ماں بہو اور بیٹا، تقدیر، گناہ گار، عورت اور زمانہ، نیلا پربت، پیا ملن کی آس، ہنی مون، جیسی کام یاب اور یاد گار فلموں میں انہیں بہ طور ہیروئن بےحد پسند کیا گیا۔
حسن طارق فلمی صنعت کے ایک جوہر شناس ہدایت کار تھے۔ ان کی جوہر شناس نگاہوں نے حُسنہ کے اندر چُھپی ہوئی ایک کام یاب ویمپ فن کارہ کو بھانپ لیا تھا، تو اپنی فلم ’’مجبور‘‘ میں پہلی بار انہوں نے حُسنہ کو ایک منفی کردار کروایا، جس میں وہ بے حد کام یاب رہیں۔ حسنہ بہ طور ہیروئن زیادہ کام یابی حاصل نہ کرپائیں ، مگر منفی کرداروں میں جو ملکہ انہیں حاصل تھا، وہ بہت ہی کم اداکارائوں کو نصیب ہوتا ہے۔ کرشمہ، سبق، خاموش نگاہیں، آر پار، بانو رانی، آرزو، راجہ جانی، اولاد، ثریا بھوپالی، ضرورت میں ان کے منفی کردار بے حد پسند کیے گئے۔