راجہ مبشر اقبال جنجوعہ
ہمارے معاشرے میں عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے ،ایک فرد کا دوسرے سے فاصلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے، یہ فاصلے تعلیم ، دولت کی بنیاد پر بڑھتے چلے جا رہے ہیں، جوتعلیم یافتہ افراد میں زیادہ ہیں۔ دل و دماغ کے یہ فاصلے کسی قانون کی مدد سے کم نہیں کیے جا سکتے یہ ایک ایسا خلا ءہے ،جو انسانی شخصیت کے اندر ہوتا ہے، جس کی جڑ اخلاقی تعلیم وتربیت کی خامی ہے۔ دراصل انسان اوئل عمری میں ،جو تعلیم حاصل کرتا ہے وہ اس کی زندگی پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے ، بنیادی تعلیم درحقیقت ذہن سازی کا وہ عمل ہے جس پر انسانی شخصیت کا پورا ڈھانچا کھڑا ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے جب ہم تعلیم کی بات کرتے ہیں توفقط اسکول ،کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم ہی کو تعلیم گردانتے ہیں ، معذور افراد کی تعلیم کو شمارہی نہیں کیا جاتا یہ ایک کھلی ناانصافی ہے بلکہ معاشرے میں عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ یہی ہے، کیوں کہ یہ سارا کھیل ذہن سازی کا ہے ۔ انگریزی میڈیم اوراُردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والوں کی ذہنیت بالکل الگ ہوتی ہے، جب کہ معیارِ تعلیم میں بھی زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔انگریزی میڈیم والے اُردو میڈیم والوں کو کم تر تصور کرتے ہیں ۔حالاں کہ زبان کی بنیاد پر کسی کو اعلیٰ یا کم تر تصور کرنا بہ ذات خود ’’جہالت‘‘ کی نشانی ہے، پھر چاہے آپ کے پاس دنیا کے کسی بھی تعلیمی ادارے کی کتنی ہی اعلیٰ اسناد کیوں نہ ہوں۔
ویسے تو ہر انسان کے خیالات اور نظریات مختلف ہوتے ہیں، مگر بنیادی یکساں تعلیمی نصاب کے ذریعے اس ذہنیت کو ضرور بدلا جا سکتا ہے کہ اُردو میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے والےنوجوان انگریزی والوں سے پیچھے یا کم تر ہوتے ہیں۔اس کے لیے مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں یکساں تعلیمی نصاب کو یقینی بنائیں اور وقتاً فوقتاً اس بات کا جائزہ بھی لیتے رہیں کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے طالب علموں کے ساتھ نا انصافی تو نہیں ہو رہی ۔
علاوہ ازیں ہمارے تعلیمی نصاب میں ایسے مضامین شامل کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے، جن سے طالب علوں کی اخلاقی تربیت بھی ہو، انہیں سماجی علوم ،معاشرتی آداب کا بھی درس دیا جائے تاکہ وہ محض روایتی تعلیم ہی نہ حاصل کریں بلکہ با شعور ، بااخلاق اور ہر قسم کے تعصب سے پاک شہری بنیں، کیوں کہ ہمیں ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے ، جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ پُر اعتماد اور ہر طرح کے تعصب سے بالا ہوں۔
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میں آپ اپنے تلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے: ’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن، اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔