بیسویں اور اکیسویں صدی کے معروف ماہر طبیعیات اسٹیفن ہاکنگ جو کہ 60ءکی دہائی میں ’’موٹر نیوران ڈیزیز‘‘نامی بیماری کا شکار ہوگئے تھے جسے معالجین نے لاعلاج مرض قرار دیتے ہوئےموت سے پہلے کی لرزہ خیز علامات کا بھی ذکر کیا تھا جبکہ ایم این ڈی نے پہلے ان کےہاتھ، پیر اور پھر زبان بھی مفلوج کردی تھی اور پھر دنیا سے ان کا رابطہ صرف کمپیوٹر کے ذریعے رہ گیا تھا، جسے وہ اپنی آنکھوں کی جنبش سے آپریٹ کرتے تھے۔ اِسی مرض میں مبتلا ایک خاتون لندن میں بھی مقیم ہیں جن کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔
’’موٹر نیوران ڈیزیز‘‘نامی مرض میں مبتلا شازیہ مری نامی خاتون نے نمائندہ ’جنگ‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُ ن کے والدین کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے جبکہ اُن کی پیدائش لندن میں ہوئی اور تعلیمی مدارج بھی وہیں طے کیے اور پھر لندن کے ایک مقامی اسکول میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئیں، بعد ازاں، شادی، بچّے بھی اسی شہر میں ہوئے اور ریٹائر ہونے پر اسکول انتظامیہ نےاُنہیں یہیں ملازمت دے دی۔
شازیہ بخاری نے اپنے تفصیلی تعارف کے بعد اپنے مرض سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ میری عُمر اُس وقت 47 سال تھی کہ جب ایک روز میں نے اپنے ایک ہاتھ میں کچھ کمزوری محسوس کی۔ کتابیں اُٹھاتی تو وہ گِر جاتیں، چیزیں پکڑتی تو گرفت کمزور ہونے لگتی تھی اور پھر آہستہ آہستہ جب گرفت تقریباً ختم ہونے لگی تو کچھ تشویش ہوئی۔
اُنہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کے پاس گئی تو انہوں نے تشخیص کیا کہ رگیں دَب گئی ہیں، آپریشن سے ٹھیک ہو جائیں گی اور رفتہ رفتہ گرفت بھی بحال ہوجائے گی لیکن نہ جانے کیوں آپریشن کے لیے دل نہیں مانا اور پھر کسی نے مشورہ دیا کہ برمنگھم میں ایک مستند حکیم ہیں، انہیں دِکھائیں، یقیناً شفا ہوگی۔
شازیہ بخاری نے کہا کہ ’میں جب حکیم صاحب کے پاس علاج کے لیے گئی تو حکیم صاحب نے کہا کہ آپ کے مسلز جواب دے رہے ہیں ، پھر ہومیو پیتھک علاج شروع کیا اورمساج کرو ایا۔ دوبارہ ڈاکٹرز سے رجوع کیا تو اس مرتبہ تشخیص روح فرسا تھی‘۔
اُنہوں نے بتایا کہ جب اُنہوں نے دوبارہ ڈاکٹر سے رجوع کیا تو ڈاکٹر نے کہا اعضا کی جنبش کے لیے جو سگنل دماغ سے جاتے ہیں ، وہ درمیان ہی میں بریک ہو رہے ہیں اور جو خرابی ہو چُکی ہے اس کے ٹھیک ہونے کی قطعی کوئی امید نہیں۔ یہ مرض ٹھیک نہیں ہوسکتا اور یہ خدشہ بھی ہے کہ آپ کی جسمانی نقل و حرکت بالکل ختم ہو جائے گی۔
شازیہ بخاری کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز نے اُنہیں نہ کسی قسم کی کوئی اُمید دلائی اور نہ ہی حوصلہ افزائی کی کیونکہ لندن میں ڈاکٹرز مریض سے کچھ نہیں چُھپاتے اور ہر سنگین مرض کی تفصیل، جس کا مریض کو گمان بھی نہ ہو، اس کے سامنے کھول کر رکھ دیتے ہیں۔
اُن نے کہا کہ یہ وہ وقت تھا، جب مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہو چُکی تھی کہ جلد یا بدیر میری ایک نئی زندگی شروع ہونے والی ہے، معذوری اور بے بسی کی زندگی لیکن میں نے اس مشکل گھڑی میں یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنی معذوری اور ڈاکٹرز کی تشخیص کے بارے میں ناگزیر صورتِ حال پیدا ہونے تک کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔
شازیہ بخاری کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے شوہر سے بھی اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی اور اگلے ہی دن معمول کے مطابق اسکول چلی گئی، ڈرائیو بھی خود کرتی تھی لیکن آہستہ آہستہ کمزوری غالب آگئی اور دوسرے اعضاء بھی ساکت ہونے لگے، تو مجبوراً اسکول چھوڑنا پڑا اور اس مشکل مرحلے میں اسکول کی انتظامیہ نے میری بہت مدد کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ بیماری کی نوعیت کے پیشِ نظر، کاؤنسل (امدادی ادارے) نے اُنہیں فلیٹ دے دیا اورجب معذوری غالب آگئی، تو پھر گلوبل چیریٹی کے ادارے نےاُنہیں فوری طور پر خصوصی طور پر ڈیزائنڈ ایک وہیل چیئر بھی فراہم کی، جو اُنہیں لفٹ کے ذریعے گاڑی میں منتقل کرنے اور کہیں آنے جانے میں مدد دیتی تھی۔
شازیہ بخاری نے بتایا کہ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس بھی اس ضمن میں مددگار ہے لیکن اُس کے پاس اتنے فنڈز نہیں کہ کسی ایک مریض پر اتنا خرچہ کر سکے۔ اس لیے وہ ’’ایم این ڈی‘‘سے رابطہ کرتی ہے اور وہ بھی رقم چیریٹی سے اکٹھی کرتی ہے۔
ازدواجی اور ذاتی زندگی کے حوالے سےشازیہ بخاری کا کہنا تھا کہ جب یہ بیماری اُ ن پر غالب آگئی تو اُنہوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ اب میں معذور ہو چُکی ہوں، زندگی کے سفر اور فرائض دونوں میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتی۔اس لیے اگر آپ چاہیں تو دوسری شادی کر لیں اور میں صدقِ دل سے اس کی اجازت دیتی ہوں لیکن انہوں نے ہر مرتبہ میری بات مذاق میں ٹال دی اور کہا کہ تم جس عزم وہمّت اورصبر و شکر کے ساتھ ساری صورتِ حال کا سامنا کر رہی ہو، وہ میرے لیے مثالی ہے۔
شازیہ بخاری نے اپنی دونوں بیٹیوں سے متعلق کہا کہ میری دونوں بیٹیاں ملازمت کر رہی ہیں، بڑی بیٹی زارا کی عُمر 25 سال ہے جبکہ چھوٹی بیٹی عمارہ نے میری صحت کے پیشِ نظر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ اب وہ ناصرف میری خدمت اور دیکھ بھال کرتی ہے بلکہ اسے اتنا تجربہ ہو چُکا ہے کہ اُسے اِن خدمات کے لیے فُل ٹائم رجسٹر کر لیا گیا ہے اور اب وہ بڑی عُمر کی خواتین کو بھی اپنی خدمات فراہم کرتی ہےجس کا اُسے معاوضہ بھی ملتا ہے۔
اُنہوں نے اپنی وہیل چیئر کے بارے میں بتایا کہ اس وقت میں جس وہیل چیئر پر بیٹھی ہوں، یہ میرے جیسے مریضوں کے لیے خصوصی طور پر تیار کی گئی ہے اور مریض کی کیفیات اور ضروریات کے پیشِ نظر اس میں تبدیلیاں بھی کی جاتی ہیں اور میں تقریباً پانچ سال سے اسی پر زندگی گزار رہی ہوں۔
شازیہ بخاری نے بتایا کہ اس پر جو کمپیوٹر نصب ہے، اس میں ایسی ڈیوائسز لگی ہیں، جو میں اپنی پلکوں سے آپریٹ کرتی ہوں۔ مثلا اگر میں نے ٹی وی دیکھنا ہے یا چینل تبدیل کرنا ہے، تو میں ریموٹ کنٹرول استعمال نہیں کرتی، اپنی آنکھوں کی جنبش سے یہ کام کرتی ہوں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُنہیں ابھی سے بتا دیا گیا ہے کہ آنے والے دِنوں میں وہ قوّتِ گویائی سے بھی محروم ہو جائیں گی اسی لیے ابھی سے ایک خصوصی ڈیوائس کمپیوٹر میں نصب کردی گئی ہے جس میں اُنہوں نے 1600جملے ریکارڈ کرلیے ہیں، جو روز مرّہ زندگی میں عموما بولنے ہوتے ہیں۔
شازیہ بخاری نے کہا کہ اس طرح میں گویائی سے محروم ہو جانے کے بعد بھی اپنی آواز کے ذریعے سب سے رابطے میں رہوں گی اور بات چیت کر سکوں گی۔
دوسری جانب شازیہ بخاری کی بیٹی زارا نے کہا کہ ہماری زندگی کا مقصد صرف امّی ہیں۔ اس حالت میں اُنہیں دیکھ کر دُکھ تو ہوتا ہے لیکن انہوں نے ہمیں بھی مضبوط بنا دیا ہے۔ امّی نے کبھی بے بسی، بے چارگی اور ترس کھانے والا رویہ اختیار کرکے ہم دردی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن میں کبھی کبھی اکیلے میں بہت ٹوٹ کر روتی ہوں۔
’’موٹر نیوران ڈیزیز‘‘کیا ہے؟
شازیہ بخاری جس مرض میں مبتلا ہیں، وہ دماغ اور اعصابی نظام کو بُری طرح متاثر کرتا ہے۔ اس کی ابتدا لاعلاج کم زوری سے ہوتی ہے اور بتدریج عرصۂ حیات کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ انسانی سیلز بھی رفتہ رفتہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی کچھ لوگ کافی عرصہ زندہ رہتے ہیں، لیکن بغیر کسی جسمانی جنبش کے۔ اس مرض کی علامات کے بارے میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ابتدا میں ہاتھوں، ٹانگوں، ٹخنوں میں کم زوری محسوس ہوتی ہے، سیڑھیاں چڑھنا دشوار ہونے لگتا ہے اور بولنے میں دقّت محسوس ہوتی ہے ۔
کھانا حلق سے اتارنے میں بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے، ہاتھ کی گرفت کم زور ہوتی چلی جاتی ہے، چیزیں ہاتھ سے گرنے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ روزمرّہ کے معمولات کی ادائی میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔
جسم کے کسی حصّے میں پھڑپھڑاہٹ، پٹّھوں میں اکڑ اؤ محسوس ہوتا ہے اور وزن بتدریج کم ہوتاچلا جاتاہے۔ لیکن یہاں یہ بات اہم اور قابلِ ذکر ہے کہ اوّل تو الحمداللّہ، پاکستان میں اب تک اس بیماری کا کوئی کیس منظرِ عام پر نہیں آیا۔ دوم، معالجین کے مطابق کسی بھی فرد میں ان میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ علامات پائے جانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ ایم این ڈی ہی میں مبتلا ہورہا ہے۔
البتہ، ایسی علامات ظاہر ہونے پر لا پروائی برتنے سے بہتر ہے کہ فی الفور معالجین سے رابطہ کیا جائے ۔ Motor Neurone Disease پر تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ خواتین اس مرض میں کم مبتلا ہوتی ہیں، البتہ مردوں میں بھی ایتھلیٹس اس کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔