زرین قمر
اکثر اپنی روز مرہ کی مصروفیات ادا کرتے ہوئے دفتر سے گھر، گھر سے دفتر جاتے ہوئے یا اسکول سے آتے جاتے ایسے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں ،جس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے ،کسی کو مار دیا، کسی کا کسی سے جھگڑ اہوا اور پھر معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ ہاتھا پائی تک نوبت آگئی، موقع پر موجود کچھ لوگوں نے درمیان میں پڑ کر بیج بچائو کروا دیا تو لڑائی ختم ہوگئی ورنہ اور بڑھ گئی ایسے واقعات ہمیں ناصرف راستے، گلیوں میں ،بلکہ گھروں، دفتروں اور دوسری جگہوں پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
کیا کبھی کسی نے سوچا کہ لوگوں میں یہ غم و غصہ اور بے چینی کیوں ہے؟ آخر کیوں ہم ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں؟ ایسا کیا ہے، جو ہمارے درمیان اختلاف کی وجہ بنا ہوا ہے۔ ہم اگر غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ وجہ سب کی ایک ہی ہے اور وہ ہے ہمارے درمیان پایا جانے والا ’’جنریشن گیپ‘‘ جو بہت سے اختلافات کی وجہ بنتا ہے۔ مثلاً گھروں میں بزرگ اکثر بچوں کو اپنی ذہنی پہنچ کے مطابق نصیحتیں کرتے ہیں، وہ آپ سے ساٹھ ستر سال پہلے پیدا ہوئے ہیں اور اسی حساب سے سوچتے ہیں اور نصیحتیں کرتے ہیں۔
وہ اپنے اُس وقت کے رسم و رواج اور تقاضوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، جبکہ نوجوان اپنے دور میں جی رہے ہوتے ہیں اور وہ اپنی اقدار کے مطابق اپنی دلچسپی اور ضرورت کے مطابق چل رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ دونوں میں اختلافات کا باعث بنتی ہے دنیا کے ہر ملک میں لوگ اس کا شکار ہیں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، بہت مباحثے ہوئےہیں، لیکن نتیجہ یہی نکلا کہ دونوں کے درمیان ٹائم کا جو گیپ ہے اسے ختم نہیں کیا جاسکتا اور ہر جگہ ہمیں ایک ہی جملہ سننے کے یلے ملتا ہے
’’رہنے دو یہ نہیں سمجھیں گے‘‘
اس جملے سے مایوسی کا اظہار ہوتا ہے میری اپنے نوجوانوں سے گزارش ہے کہ وہ اس صورت حال کو سمجھیں، بزرگوں، پر زور نہ دیں کہ وہ اپنے آپ کو بدلیں بلکہ بزرگوں اور اپنے درمیان پائے جانے والے اختلاف کو سمجھیں اور اسے ختم کرنے کی کوشش کریں۔اس کی مثال یوں لے لیں کہ اگر گھر میں کسی بزرگ کے ساتھ کوئی اختلاف ہے تو اس کی وجہ جاننے کی کوشش کریں۔ انہیں عزت دیں،وقت دیں۔ یقین کریں بعض اوقات بزرگوں کو یہی شکایت ہوتی ہے کہ بچے اُن کے ساتھ وقت نہیں گزارتے، دراصل وہ زندگی میں اپنا فرض ادا کرنے کے بعد ملازمت سے ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں پھر ان کے پاس بہت وقت ہوتا ہے جسے وہ اچھے انداز میں اپنے بچوں کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں اگر آپ ان کی اس خواہش کا احترام کریں گے تو یقیناً وہ آپ سے خوش ہوں گے، بجائے اس کے کہ آپ کہیں کہ انہیں تو ہماری بات سمجھ ہی نہیں آتی یا اُن کے ساتھ وقت گزارنا بے کار ہے مگر آپ انہیں اہمیت دیں گے اور احساس دلائیں گے کہ آپ کو اب بھی ان کی ضرورت ہے اور آپ کو ان کی موجودگی خوش رکھتی ہے تو ان کے دل میں بھی آپ کی قدر بڑھے گی آپ کو چاہیے کہ اکثر اوقات گھریلو الجھنوں اور مسائل پر ان سے مشورے مانگیں اس طرح انہیں اپنی اہمیت کا احساس ہوگا اور آپ کے اور ان کے درمیان موجود خلا پر ہوجائے گا۔
اگر دفتر وغیرہ کی مثال لیں تو وہاں کے مسائل نوجوانوں اور بزرگوں کے درمیان تیکنیکی نوعیت کے زیادہ ہوتے ہیں مثال اس کی یہ ہے کہ آج کی زندگی میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی بہت اہمیت حاصل کرلی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بزرگ اس کے استعمال سے ناواقف ہوتے ہیں اس طرح کئی دفتری ذمہ داریاں پوری نہیں کرپاتے اور اپنے ساتھ کام کرنے والے نوجوانوں کی تنقید یا غلط رویوں کا شکار ہوتے ہیں اور یہی چیز ان کے درمیان فاصلے پیدا کردیتی ہے جو جھگڑے کا باعث بنتے ہیں ۔
نوجوانوں کو چاہیے کہ بجائے وہ بزرگوں کے بدلنے کا انتظار کریں خود کو بدل لیں ان بزرگوں پر تنقید کرنے کے بجائے انہیں کام کے گر سکھائیں ان کا کچھ کام شیئر کرلیں اور انہیں احساس دلائیں کہ اگر انہیں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی معلومات نہیں پھربھی وہ آپ کے لیے کارآمد ہیں آپ ان سے ان کے تجربے کی روشنی میں کسی کام کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں ان کے اور اپنے درمیان موجود فاصلوں کو کم کرنے کے لیے پلان کر سکتے ہیں یقین کیجئے ایسا کرنے سے ان کے اور آپ کے درمیان جنریشن گیپ ختم ہوجائے گا بس ایک چھوٹا سا جملہ کہتا چھوڑ دیجئے
’’یہ رہنے دو۔ ان کی سمجھ نہیں آئے گا۔‘‘
بزرگوں اور نوجوانوں کے درمیان موجود فاصلوں کی خلیج کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ، محبت، توجہ اور لگن ہے اس کے لیے بزرگوں کو اپنے آپ کو تھوڑا بدلنا ہوگا لیکن نوجوانوں کو بہت زیادہ مستقل مزاجی اور صبر کی ضرورت ہے ۔انہیں زیادہ لگائو اور زیادہ محبت کا اظہار کرنا ہوگا ،بزرگوں کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ انہیں بزرگوں کی ضرورت ہے ۔ان سے پیار ہے اور وہ ان کی قدر کرتے ہیں۔ یقین کیجئے اس سب کا جواب انہیں بھی یقینا مثبت انداز میں ہی ملے گا اور یہ تو ناممکن ہے کہ کسی سے محبت کریں کسی کو وہقت دیں کسی کو اہمیت دیں اور اس کے جواب میں آپ کو وقت کچھ نہ ملے۔
تو آج سے وعدہ کریں کہ آپ اپنے بزرگوں کی عزت کریں گے، انہیں وقت دیں گے، اُن سے ان کی جوانی کے واقعات سنیں گے، وہ واقعات جن میں انہوں نے کچھ کارنامے کئے ہوں گے اور کئی کئی بار سننے کے باوجود آپ بہت دلچسپی اور چاہ سے انہیں پھر سنیں گے اور اپنے لیے بھی اس روشنی میں ان سے مشورے ملیں گے یقین کریں کہ آپ کے بزرگ اگر کسی مسئلے پر آپ کے مخالفت بھی کریں گے تب بھی وہ آپ کے بہترین رویے کی بدولت آپ پر مہربان ہوجائیں گے اور آپ کے دوست اور آپ کے مخالفین کے سامنے آپ کے لیے ڈھال بن جائیں گے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
یقین کیسا
گمان کیسا
عروج کیسا
زوال کیسا
سوال کیسا
جواب کیسا
محبتیں تو محبتیں ہیں
محبتوں میں حساب کیسا۔
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میںآپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے: ’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن، اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔