• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رقیہ اقبال

آج پھر زیان پر قنوطیت کا دورہ پڑچکا تھا، پچھلے تین ہفتوں سے وہ اپنے اسائمنٹ مکمل کرنے کی کوششوں میں تھا لیکن تین ہفتے مکمل ہونے کے بعد بھی اس کے کام ادھورے کے ادھورے ہی تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ بہت سست، کاہل، کام چور اور محنت سے جی چرانے والا تھا، بلکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ وقت کا صحیح استعمال نہیں کرپاتا تھا اور پھر آخر میں جب کام کا بوجھ زیادہ ہوجاتا اور وقت بہت کم، تو اسے کافی مشکل پیش آتی۔ اب بھی اس کا یہی حال تھا۔ کل باس سے ڈانٹ اور دیگر کولیگز کے سامنے بے عزتی یقینی تھی، یہ سوچ سوچ کر اس کے ذہنی انتشار کی سطح بلند ہوتی جارہی تھی جو کہ اس کی سوچوں کو منفی رخ دے رہی تھی۔

وہ سوچنے لگا کہ مجھے یہ جاب چھوڑ دینی چاہیے، فضول کی درد سر، اتنے ڈھیر اسائمنٹ کیسے تین ہفتوں میں مکمل ہوسکتے ہیں۔ ابھی وہ اسی ذہنی کشمکش میں مبتلا تھا کہ اس کے دفتر کے ساتھی کی کال آگئی۔ اسکرین پر اپنے دوست کا نمبر جگمگاتا دیکھ کر اس کے ذہن میں ایک خیال لپکا کہ شاید میرے ساتھی کا بھی کام نامکمل ہے، اگر ہم دونوں ہی کل کام نہ دیں تو باس کو شاید اپنی غلطی کا احساس ہوجائے کہ یہ کام تین ہفتوں کے دورانیے کے لحاظ سے بہت زیادہ تھا اور اس طرح ہم دونوں کو اضافی وقت مل جائے۔ اس خیال سے اس کی ڈھارس بندھنے لگی۔ 

لیکن یہ امید بھی اس وقت دم توڑگئی جب اس کے دوست نے بتایا کہ اس کا کام تقریباً فائنل ہے ، زیان نے غصے میں آکر رسمی کلمات کہے بغیر ہی کال منقطع کردی۔ دوسری طرف سے بھی شاید محض یہ خبر سناکر اسے جلانے کے لیے کال کی گئی تھی کیونکہ کال کرنے والے کا مقصد پورا ہوچکا تھا اور پھر دوبارہ رابطہ کرنے کی بھی کوشش نہیں کی گئی۔وہ دل ہی دل میں اپنے دوست کو مغلظات بکنے لگا، چاپلوس کہیں کا… باس کا چمچا… اب تو اس کی آخری امید بھی دم توڑگئی تھی لہذا کام تو کرنا ہی تھا۔

باس کے ڈر سے اس نے پوری رات جاگ کر کسی نہ کسی طرح اسائمنٹ مکمل کر ہی لیے۔ ایک تو رت جگے سے اس کی نیند بھی پوری نہ ہوئی تھی اور پھر کام بھی بس گزارے لائق تھا لہذا باس کی جانب سے بھی اس کے کام کو کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی۔ جبکہ اس کے دوست کے اسائمنٹ کی پوری آفس میں دھوم مچی ہوئی تھی۔ یہ بات بھی زیان کو ہضم نہیں ہورہی تھی۔ لیکن گھر آکر جب اس نے ٹھنڈے دل ودماغ سے اپنا احتساب کرنا شروع کیا تو اسے اپنا آپ قصوروار نظر آنے لگا۔ اب اسے پچھتاوا ہورہا تھا کہ اس نے اپنا قیمتی وقت فضول کاموں میں ضائع کیا، جس کے نتیجے میں کوئی کام وقت پر مکمل نہ ہوسکا۔ اگر وہ اپنے آفس کے اسائمنٹ کو ترجیح دیتا اور فضول تفریحی سرگرمیوں میں وقت کو یوں ضائع نہ کرتا تو اسے اتنی سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور اس کے کام کو بھی سراہا جاتا۔

ایسا نہیں ہے کہ آج کا نوجوان بہت سست رفتار، اور بہانے باز ہے بلکہ کافی سرگرم ، ذہین اور ہوشیار ہے، وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے، اس میں سیکھنے کی لگن ہے، کچھ کرنے کا جنون ہے، لیکن اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنا وقت ترتیب نہیں دے پاتا۔ اس کے دماغ میں کاموں کا ہجوم ہے، مجھے یہ بھی کرنا ہے، مجھے وہ بھی کرنا ہے، لیکن ان تمام کاموں کو جب وہ مناسب وقت نہیں دے پاتا تو پھر وہ وضاحت دیتا اور خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے کہ ’’مجھے وقت نہیں مل رہا‘‘ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر وقت کا صحیح استعمال نہ کیا جائے اور زیادہ تر وقت سوچنے یا خیالی پلاؤ بنانے میں صرف کردیا جائے تو پھر تمام کام ادھورے رہ جاتے ہیں اور انسان ذہنی انتشار کا شکار ہوکر روکھا، بدمزاج اور ڈپریشن کا مریض بن جاتا ہے۔ قنوطیت اور یاسیت اس پر سوار ہوکر اس کے حوصلے کمزور کردیتی ہے۔ لہذا وقت کی اہمیت اور افادیت کو نظر انداز کرکے انسان بڑا آدمی کبھی نہیں بن سکتا۔

اکثر طالب علم امتحانات میں تیاری نہ ہونے کا رونا روتے نظر آتے ہیں ، سمسٹر کے آغاز سے وہ اپنی پڑھائی پر بالکل توجہ نہیں دیتے اور اختتام پر جب امتحانات سر پر سوار ہوتے ہیں تو انہیں یہ احساس مارڈالتا ہے کہ کاش کچھ پڑھ لیتے۔لہذا نتائج پر بھی اس کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔ پھر وہ اپنے دوستوں، گھروالوں سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ بس اس دفعہ پیپر ہوجائیں اگلے سمسٹر میں تو آغاز سے ہی تیاری شروع کردونگا لیکن امتحانات کی بلا سر سے ٹلتے ہی وہ پھر ویسے ہی بے فکر ہوکر خود سے کئے گئے وعدے فراموش کربیٹھتے ہیں۔ 

یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور وہ سمسٹر کبھی نہیں آتا کہ جب انہوں نے آغاز سے ہی تیاری کرنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کالج یا یونیورسٹی لائف میں اکثر طالبعلم جب وقت پر کام مکمل نہیں کرپاتے تو پھر وہ بہانے تلاش کرتے ہیں۔کہ کسی نہ کسی طرح ان کے دیگر ہم جماعت بھی ان کے ساتھ مل کر وقت پر کام کرکے نہ دیں تاکہ اساتذہ پر پریشر ڈال سکیں کہ اضافی وقت مہیا کیا جائے۔ لیکن وقت کی قدر نہ کرنے والے اضافی وقت ملنے پر بھی کوئی تیر نہیں مارتے اور اساتذہ کی نظروں میں اپنی عزت وتوقیر بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔

زمانہ طالب علمی میں اسائمنٹ اور اسائمنٹ دینے والا استاد برا لگتا ہے لیکن وہ اپنا کام کیوں وقت پر مکمل نہیں کرپاتے، کیوں پڑھائی کو غیر سنجیدگی سے لیتے ہیں، کیوں وقت ضائع کرتے ہیں، یہ سوچ کر انہیں اپنا آپ برا نہیں لگتا کیونکہ آج کے نوجوان میں خود احتسابی کی عادت نہیں ہے۔

کامیابی کی پہلی شرط وقت کی قدر اور اس کا بہترین استعمال ہے۔ روز اپنے کاموں کی فہرست تیار کریں اور اس کے مطابق روز کے کام روز نمٹائیں۔ اس سے نہ صرف آپ ذہنی طور پر پرسکون رہیں گے بلکہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ یاد رکھیں! جو وقت کو سنجیدگی سے نہیں لیتا اور اسے ضائع کرتا ہے وقت بھی اسے ضائع کردیتا ہے۔

تازہ ترین