• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض فارسی الفاظ کے املا میں سے کبھی کبھی الف کو حذف کردیا جاتا ہے

ایک نوجوان نے برقی ڈاک کے ذریعے یہ سوال پوچھا ہے : اردو میں کچھ الفاظ دو طرح لکھے جاتے ہیں، مثلاً شاہنشاہ اور شہنشاہ، شاہ زادی اورشہزادی۔ اسی طرح پناہ گاہ کو پنہ گاہ بھی لکھا جاتا ہے ۔ ان میں سے کون سااملا درست ہے؟

جواب یہ ہے کہ محمد حسین آزاد نے فارسی قواعد پر ایک کتاب اردو میں لکھی ہے جو لاجواب ہے۔ اس کا نام ہے جامع القواعد۔ پہلی بار ۱۸۸۹ء میں لاہور سے چھپی اور نصاب میں شامل کرلی گئی(ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے اس کے پہلے ایڈیشن کا سالِ اشاعت ۱۸۸۴ء لکھا ہے جو غالباً سہوِ کاتب ہے) ۔یہ کتاب اب کم یاب بلکہ تقریباً نایاب ہے (کاش کوئی دوبارہ چھاپ دے) حالانکہ اس کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ راقم کے ذاتی ذخیرے میں اس کے تیرھویں ایڈیشن (۱۹۰۷ء )کا ایک نسخہ موجود ہے۔

اس میں آزاد نے فارسی زبان کی بعض خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فارسی کے بعض الفاظ کے املا میں سے الف کو کبھی کبھی حذف کردیا جاتا ہے اور مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ الف کو حذف کرنے کا یہ عمل کبھی لفظ کے شروع میں ہوتا ہے اورکبھی درمیان میں ۔ اس کی مثالیں بعض دیگر کتب میں بھی ہیں جن کو یہاں مختصراً پیش کیا جارہا ہے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ الف کو حذف کرنے کا یہ عمل زیادہ تر شاعری میں ہوتا ہے اور نثر میں ایسی مثالیں ذرا کم ہی ملتی ہیں۔

الف کو لفظ کی ابتدا میں حذف کرنے کی مثال اگر دیکھیں تو اَ فسانہ کو فَسانہ بھی لکھا اور بولا جاتا ہے یعنی ابتدائی الف کے بغیراور معنی وہی رہتے ہیں۔ اسی طرح اُشتُر کی بجاے شُتُر (یعنی اونٹ)آتا ہے ۔ایسی اور مثالیں بھی ہیں ، جیسے : اِسکندر سے سِکندر، اَبریشم سے بَریشم(یعنی ریشم)، اَفگار سے فِگار(یعنی زخمی) بنایاگیا ہے۔اَفسوُن یا اَفسوُں( یعنی جادو یا فریب) کوفُسون یا فُسوں بھی لکھا جاتا ہے(یعنی نون کے ساتھ یا نون غنے کے ساتھ) ، مثلاً غالب کا مصرع ہے:

مجنوں، فسونِ شعلہ خرامی فسانہ ہے

اس مصرعے میں فسانہ اور فسون دونوں کی مثال آگئی ہے۔ احمد فراز کا شعر ہے :

اس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے ، یوں ہے

یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں یوں ہے، یوں ہے

اسی طرح اِبراہیم کی بجاے بَراہیم ۔ اقبال ؔکا مصرع دیکھیے :

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

اَفسُردہ کی بجاے فَسُردہ اوراَفسُردگی کی بجاے فَسُردگی۔ فیض ؔنے کہا ہے :

فضاے دل پہ اداسی بکھرتی جاتی ہے

فسردگی ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے

لفظ کی ابتدا میں الف کو حذف کرنے کی ایک مثال اِیستادہ کو سِتادہ لکھنا بھی ہے۔ مثلاً احمد فراز نے کہا کہ:

جیسے کوئی درِ دل پر ہو سِتادہ کب سے

ایک سایہ نہ دروں ہے نہ بروں ہے، یوں ہے

فارسی الفاظ میں کبھی درمیان کا الف بھی حذف کردیتے ہیں مثلاً پیراہن سے پیرہن (یعنی قمیض)، دامان سے دامن، دہان سے دہن، پناہ سے پنہ اور گاہ سے گہ، جیسے کار گاہ (یعنی ور کشاپ یا کارخانہ)کی بجاے کارگہ۔میر ؔکا شعر ہے:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہِ شیشہ گری کا

اسی طرح نگاہ کو ’’نگہ ‘‘بھی لکھا جاتا ہے ، مثلاًغالبؔ کہتے ہیں :

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی

وہ اک نگہ کہ بظاہر نگاہ سے کم ہے

یہاںاگر دوسرے مصرعے میں نگہ کی بجاے نگا ہ یا نگاہ کی بجاے نگہ رکھ دیا جائے تو مصرع ساقط الوزن ہوجائے گا۔ لفظ نگہ پراستاد ابراہیم ذوق ؔکا شعر یاد آگیا:

گل اس نگہ کے زخم رسیدوں میں مل گیا

یہ بھی لہو لگا کے شہیدوں میں مل گیا

اسی لفظ نگہ سے نگہ بان اور نگہ بانی کی تراکیب ہیں جنھیں ملا کر نگہبان اور نگہبانی لکھاجاتا ہے۔ تھوڑا سا مسئلہ بظاہر اس وقت نظر آتا ہے جب بعض الفاظ و مرکبات میں سے الف کو حذف کرنے بعد انھیںملا کر لکھا جاتا ہے اور اس طرح اس کالفظ یا مرکب املا توڑ کر لکھے ہوئے الفاظ و مرکبات سے بظاہر ذراسا مختلف ہوجاتا ہے ، جیسے:گناہ سے گنہ ۔ غالب نے کہا ہے :

آتا ہے داغ ِ حسرت ِ دل کا شمار یاد

مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

یہاں اگر گنہ کو گناہ پڑھا یا لکھا جائے تو مصرع بحر سے خارج ہوجائے ۔اسی طرح الف کو نکال کر گناہ گار کی بجاے گنہ گار لکھتے ہیں اور اسے ملا کر لکھا جائے تو گنہگار۔

اس طرح کی چند اور مثالیں دیکھیے: ماہ یعنی چاند کی بجاے مہ اور ماہ تاب کی بجاے مہ تاب (مہتاب)۔ شاہ سے شہ (یعنی بادشاہ ) اور شاہ زادہ (بادشاہ کی اولاد)کی بجاے شہ زادہ (شہزادہ) ۔ راہ (یعنی راستہ)کی بجاے رہ اور را ہ گزر (راہگزر)کی بجاے رہ گزر( رہگزر )… بقولِ افتخار عارف:

ہَوا بھی ہوگئی میثاقِ تیرگی میں فریق

کوئی چراغ نہ اب رہگزر میں رکھا جائے

اسی طرح سیاہ سے سیہ (جیسے سیہ بختی یعنی بد نصیبی)۔ سِپاہ (یعنی فوج اور اسی سے بنا ہے سِپاہی ) کی بجاے سِپہ اور سِپہ سالار۔

اب اس کی روشنی میں دیکھیں تو شاہ زادی میں سے پہلا الف حذف کیا گیا تو شہ زادی بنا اور اسے ملا کر لکھا تو شہزادی ۔اسی طرح شاہ زادہ کو شہ زادہ او ر ملا کر شہزادہ لکھا جاتا ہے۔ شہنشاہ میں بھی یہی صورت ہے کہ شاہنشاہ میں سے پہلا الف نکل گیا ہے اور شہنشاہ رہ گیا۔گویا شاہ زادہ؍شہ زادہ بھی درست ہے اور شاہ زادی ؍شہ زادی بھی۔ البتہ ان کا ملا ہوا املا یعنی شہزادہ ؍شہزاد ی زیادہ رائج ہے۔ 

تازہ ترین