آج کل اخبارات میں معاشی ’’اشاروں‘‘ کا تذکرہ رہتا ہے ۔ بعض اخبارات اسے معاشی ’’اشاریے‘‘ اور بعض ’’اعشاریے‘‘ لکھ رہے ہیں۔ لیکن یہاںلفظ معاشی کے ساتھ اشاریہ اور اعشاریہ دونوں غلط ہیں۔یہ دراصل انگریزی میں رائج معاشیات کی اصطلاح اکنامک انڈیکیٹر (economic indicator/s) کا ترجمہ ہے۔ اور انڈیکیٹر (indicator) کا اردو ترجمہ اشاریہ یا اعشاریہ نہیںہوسکتا ۔البتہ ــ’’اشارہ‘‘ انگریزی لفظ انڈیکیٹر کے مفہوم میں آسکتا ہے۔ کچھ اخبارات ’’معاشی اشارے‘‘ کی ترکیب بھی استعمال کررہے ہیں جوانگریزی اصطلاح کا درست ترجمہ ہے۔ آئیے ان الفاظ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
شان الحق حقی صاحب نے اپنی انگریزی بہ ارو لغت میں لفظ indicator کا مفہوم کچھ یوں دیا ہے : ’’نشان دہی کرنے والا، نمائندہ، شخص یا شے جو کسی بات کا اظہار کرے ۔ ‘‘ انھوں نے اس کے ایک معنی یہ بھی دیے ہیں : ’’گاڑی کی وہ روشنی جو مڑنے کا اشارہ کرتی ہے‘‘۔مقتدرہ قومی زبان کی شائع کردہ انگریزی بہ اردو لغت نے انڈیکیٹر کے دیگر معنوں کے ساتھ یہ معنی بھی درج کیے ہیں:’’مُظہِر، ظاہر کرنے والا، ـ اشارہ کرنے والا‘‘۔ ہندوستان میں ایک اچھا کام کلیم الدین احمد کی نگرانی میں ہوا ہے۔ یہ چھے جلدوں پر مشتمل انگریزی بہ اردو لغت ہے (جی ہاں درست املا چھ نہیں ہے بلکہ چھے ہے اور درست تلفظ بھی یہاں ’’ے‘‘ کے بغیر ادا نہیں ہوتا)۔چھے جلدوں پر مبنی یہ لغت آج تک شائع ہونے والی ضخیم ترین انگریزی بہ اردو لغت بھی ہے اور اس میں تقریباً ڈھائی لاکھ اندراجات ہیں۔ اس میں انڈیکیٹر کے یہ معنی لکھے ہیں: ’’بتانے والا، دِکھانے والا، مُظہِر‘‘ وغیرہ۔
گویا یہ تو طے ہے کہ indicator کے معنی نشان دہی کرنے والا، اشارہ کرنے والا ، دِ کھانے والا اور ظاہر کرنے والا وغیرہ ہیں۔ اب ذراکنامک انڈیکیٹر کے اصطلاحی مفہوم کو بھی دیکھ لیں۔ معاشیات کی اصطلاح میں اس سے مراد ہے میکرو اکنامکس یعنی کلاں معاشیات سے متعلق وہ اعداد و شمار جو معیشت کی رفتار اور معاشی معاملات کی پیمائش کرنے کے لیے معاشی تجزیہ کار استعمال کرتے ہیں۔ انھیں مستقبل کی معاشی رفتار کی پیشین گوئی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ گویا یہ اعداد وشمارمعاشی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ economic indicator/s کا درست ترجمہ معاشی اشارہ؍ اشارے ہوگا ، نہ کہ اشاریہ یا اعشاریہ۔
رہا لفظ اشاریہ تو یہ انگریزی کے لفظ انڈیکس (index) کا ترجمہ ہے ۔یہ کسی کتاب کے آخر میں دی گئی مندرجات کی تفصیلی فہرست ہوتی ہے جوبترتیب ِ حروف ِ تہجی بنائی جاتی ہے اور جس میں متعلقہ صفحات کی نشان دہی بھی کی جاتی ہے (اگرچہ یہ فہرست اردو کی کتابوں میں کم ہی پائی جاتی ہے لیکن انگریزی کی علمی کتابوں کا لازمی جزو ہوتی ہے)۔اشاریہ الف بائی ترتیب سے مدوّن کی ہوئی اس فہرست کو بھی کہتے ہیں جس میں ناموں یا موضوعات وغیرہ کا اندراج ہوتا ہے اور یہ عموماً مصنفوں ،کتابوں یا موضوعات کی وہ فہرست ہوتی ہے جو حروف ِ تہجی کی ترتیب سے بنا کر اس میں متعلقہ صفحات کی نشان دہی کی جاتی ہے۔
جیسے کچھ عرصے قبل ادبی رسالے ’’اوراق‘‘ کا اشاریہ شائع ہوا تھا جس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اوراق کے کس شمارے میں کس موضوع پر کس نے کیا لکھا اور وہ اس رسالے کے کس شمارے میں کس صفحے یاکن صفحات پر موجودہے۔ کسی کتب خانے میں موجود کتابوں کی حروف ِ تہجی کے لحاظ سے یا موضوع وار یا مصنف وار بنائی ہوئی فہرست بھی اشاریہ یا انڈیکس کہلاتی ہے۔ کتب خانوں میںپہلے یہ اشاریہ یا انڈیکس کارڈوں پر بنایا جاتاتھااور بعض کتب خانوں میں لکڑی کے بڑے بڑے بکسوں میں آج بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ البتہ اب جدید دور میں یہ اشاریہ کمپیوٹر پر بھی تیار کیا جاتا ہے۔ یعنی لفظ’’ اشاریہ ‘‘انڈیکس کے معنی میں ہے اور یہ انڈیکیٹر کے معنی میں نہیں آسکتا۔
لفظ اعشاریہ کا انڈیکیٹر کے معنوں میں استعمال مضحکہ خیز ہے کیونکہ اعشاریہ انگریزی میں ڈیسیمل (decimal) کو کہتے ہیں۔ اعشاریہ عربی کے لفظ ’’عشر‘‘ سے ہے جس کا مطلب ہے دسواں حصہ۔کسی اکائی کو دس برابرحصوں میں تقسیم کیا جائے تو ہر حصہ عشر کہلائے گا۔ عشر کی جمع’’ اعشار ‘‘ہے اور معنی ہیں متعدد دس حصے، کئی دس حصے ۔ اسی اعشار سے اعشاری کا لفظ بنا۔اعشاری سے مراد ہے اعشار سے متعلق ۔ یعنی تعداد یا وزن یا پیمائش کے اس نظام سے متعلق جس کی بنیاد دہائی یا دسویں حصے (عشر )یا دس دس حصوں میں تقسیم پر ہوتی ہے۔ مثلاً پاکستان میں پہلے روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے اور ایک آنے میں چار پیسے ہوتے تھے۔ اس طرح روپے میں چونسٹھ (۶۴) پیسے ہوتے تھے۔
اس نظام کو بدل کر اعشاری کردیا گیا اور اب اعشاری نظام کے تحت روپے میں سو (۱۰۰) پیسے ہوتے ہیں(جو دس کے ضرب پر مبنی ہے )۔ اسی طرح چھٹانک،پاو اور سیر کا حساب ختم کرکے اعشاری نظام کے تحت لیٹر کا حساب رائج کیا گیا جس میں ایک ہزار ملی لیٹر ہوتے ہیں (یہ بھی دس کے ضرب پر مبنی ہے )۔ انچ ، فٹ اور گز کو چھوڑ کر میٹر کا نظام لایا گیا ۔ اس میں ایک کلو میٹر میں ہزار میٹر ہوتے ہیںاور میٹر کو سینٹی میٹر اور ملی میٹر میں تقسیم کیا گیا ہے۔ان سب پیمائشوں کو دس یا اس کے مضاعف (multiple) سے تقسیم کیا جاسکتا ہے جس سے حساب میں آسانی رہتی ہے۔ اسے ناپ تول کا اعشاری نظام کہتے ہیں۔
اعشاریہ اس نشان کو کہتے ہیں جو کسی رقم کے بعد نقطے کی شکل میں لگا یا جا تاہے۔ اسے انگریزی میں decimal point کہتے ہیں اوراس نقطے یا نشان کے سیدھے ہاتھ پر لکھے گئے اعداد اس کی صورت ِ کسر (numerator) کو ظاہر کرتے ہیں۔ گویا اعشاریہ کا تعلق اعشاری نظام سے ہے نا کہ کسی اشارے سے۔
خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ انڈیکیٹر (indicator)کا ترجمہ نہ تو اشاریہ ہوسکتا ہے اور نہ اعشاریہ ، بلکہ درست ترجمہ ’’اشارہ‘‘ ہوگا۔ لہٰذا یوں لکھنا چاہیے کہ مثلاً:
۔معاشی اشاروں(indicators) میں بہتری آرہی ہے۔
۔فلاں رسالے کا اشاریہ (index) شائع ہوگیا ہے۔
۔کوئی رقم لکھتے ہوئے غلط مقام پر اعشاریہ (decimal point) لگانے سے رقم میں بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔
لہٰذا اردو اخبارات میں کام کرنے والے دوستوں سے التماس ہے کہ اس سلسلے میں ذرا احتیاط سے کام لیجیے۔