آدھے سر کا درد یعنی ’دردِ شقیقہ‘ کو انگریزی میں ’مائیگرین‘ (Migraine) کہا جاتا ہے، انسان عام سر درد کو تو برداشت کر لیتا ہے مگر دردِ شقیقہ بہت شدید اور خطرناک ثابت ہوتا ہے جو کہ متاثرہ فرد کو شدید کمزوری کا شکار بھی بنا سکتا ہے، دردِ شقیقہ کی تا حال نہ کوئی واضح وجہ سامنے آ سکی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مؤثر علاج ہے۔
مائیگرین یعنی دردِ شقیقہ قدیم ترین بیماریوں میں سے ایک ہے، طبی ماہرین کے مطابق دردِ شقیقہ کا نشانہ زیادہ تر خواتین بنتی ہیں۔
دنیا کے 195 ممالک میں دردِ شقیقہ کے حوالے سے کیئے گئے ایک مفصل سروے کے مطابق یہ بیماری خواتین میں زیادہ عام پائی جاتی ہے، دردِ شقیقہ کا ہر 15 مردوں میں سے 1 اور ہر 5 عورتوں میں سے 1 عورت شکار ہے۔
مردوں کے مقابلے میں خواتین میں اس بیماری کے زیادہ ہونے کی وجوہات واضح نہیں ہیں، 2018ء میں ایریزونا یونیورسٹی میں مادہ اور نر چوہوں پر کی گئی تحقیق میں بتایا گیا کہ اس شکایت کی وجہ ایسٹروجن کی سطح اور سوڈیم پروٹون ایکس چینجرNHE1 کی نچلی سطح کے مابین تعلق ہو سکتا ہے۔
محققین کے مطابق خواتین دردِ شقیقہ کا زیادہ شکار اس لیے بھی ہوتی ہیں کیوں کہ اِن میں جنسی ہارمونز کا بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ NHE1 میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔
19 ویں صدی کے ماہرین کا دردِ شقیقہ سے متعلق کہنا تھا کہ اس کا تعلق غریب طبقے کی ماؤں سے ہوتا ہے جن کے ذہن روز مرّہ کے کام، کم نیند، بار بار دودھ پلانے اور غذائی قلت کی وجہ سے کمزور ہوتے ہیں۔
20 ویں صدی میں اس حوالے سے ایک نیا نظریہ سامنے آیا جس کے مطابق دردِ شقیقہ کو جدید لگژری کا نتیجہ تصور کیا جاتا ہے، یعنی ایسی چیز جو اونچے طبقے کے مرد و خواتین پر اثر انداز ہوتی ہے۔
20 ویں صدی کے دوران اونچے طبقے کے ماحول میں پلنے والوں کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ وہ نازک اعصاب کے مالک ہوتے ہیں، خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دانشمندانہ کام کرنے کی صلاحیت کم رکھتی ہیں، جس کے نتیجے میں ان کا نازک اعصابی نظام فوراً شدید دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔
دردِ شقیقہ اور دور جدید
دردِ شقیقہ پر کی جانے والی حالیہ تحقیق کے مطابق سر درد کی تکلیف اور ذہنی امراض کے درمیان ایک تعلق ہے، ایک نئی تحقیق کے مطابق دردِ شقیقہ درحقیقت مختلف نفسیاتی عوارض کے باعث ہوتا ہے۔
2016ء میں کی جانے والی ایک تحقیق میں دردِ شقیقہ اور ’بائی پولر ڈِس آرڈر‘ کے درمیان مثبت تعلق پایا گیا تھا جبکہ دردِ شقیقہ سے متاثرہ لوگوں کے’جنرل انزائٹی ڈس آرڈر‘ سے متاثر ہونے کا خطرہ 2.5 گنا زیادہ تھا جبکہ ڈپریشن کے شکار افراد میں دردِ شقیقہ کا امکان 3 گنا زائد تھا۔
ایک اور تحقیق کے مطابق دردِ شقیقہ سے متاثرہ ہر 6 میں سے ایک فرد نے زندگی کے کسی نہ کسی موقع پر خودکشی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا تھا۔
یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے انسٹیٹیوٹ فار لائف کورس اینڈ ایجنگ کے ڈائریکٹر ایسمے فُلر تھامسن جو خود بھی دردِ شقیقہ کے خودکشی سے تعلق پر تحقیق کر چکے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ ’جب کسی شخص کو معلوم نہ ہو کہ دردِ شقیقہ کا حملہ کب ہو جائے گا اور یہ ملازمت اور خاندانی ذمے داریوں کو کیسے متاثر کرے گا، تو یہ بات حیران کن نہیں کہ اس کے باعث زیادہ ذہنی دباؤ ہو سکتا ہے‘۔
دردِ شقیقہ کا علاج کیا ہے؟
دردِ شقیقہ ایک عام مرض ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ ڈاکٹروں کو اس سے متعلق علاج یا مریض کو اس سے نجات دلانے کی ٹپس معلوم ہوں مگر ایسا نہیں ہے، سائنسی شعبے میں دردِ شقیقہ کا تاحال کوئی مؤثر علاج سامنے نہیں آ سکا ہے۔
امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے مئی 2018ء میں ایک ایسی دوا کی منظوری دی تھی جو سی جی آر پی ریسیپٹر پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کی حامل تھی۔
دماغ کے ریسیپٹر یعنی حس سے متعلق خلیے دردِ شقیقہ کے اٹیک کی وجہ بنتے ہیں اور یہ مجوزہ دوائی ان خلیوں کو بلاک کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
فی الحال لوگ دردِ شقیقہ کے لیے درد سے بچاؤ کے لیے ادویات (پین کلر)، انجائنا اور ہائی بلڈ پریشر کی ادویات استعمال کر رہے ہیں۔