حکومت نے کار ساز اداروں سمیت تما م سٹیک ہولڈرز سے نئی آٹو پالیسی کے حوالے سے مشاورت کا عمل مکمل کر لیا ہے اور امید ہے کہ بہت جلد اب اسکا اعلان کر دیا جائے گا ۔نئی آٹو پالیسی میں نئی بھاری سرمایہ کاری ،روز گار کی زیادہ فراہمی اور عوام کو سستی اور معیاری گاڑیاں دینا اولین ترجیح ہے ۔
حکومت 26-2021 کےلیے آئندہ آٹو ڈویلپمنٹ پالیسی (اے ڈی پی) کے تحت مختلف برانڈز کی کاروں اور دیگر گاڑیوں پر اضافی کسٹم ڈیوٹی (اے سی ڈی) اور ریگولیٹری ڈیوٹی (آر ڈی) کو کم کرنے کی مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے۔ٹیکسوں میں کمی کے ساتھ یہ توقع کی جارہی ہے کہ مختلف برانڈز کی گاڑیوں کی قیمتیں انجن کی مختلف صلاحیتوںپر000،100روپے سے 400,000 روپے تک کم ہوجائیں گی۔
آئندہ اے ڈی پی 26-2021کا مقصد نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور آٹو سیکٹر کو مسابقتی بنانا ہے تاکہ موٹرسائیکلوں کی برآمد شروع کی جاسکے جس کے بعد پاکستان سے کاریں اور ٹریکٹر بھی برآمد ہوں۔وزارت صنعت و پیداوار انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ حکام کا کہنا ہےکہ آنے والے چند مہینوں میں مختلف کار برانڈز کی تعداد 55 تک پہنچ جائے گی اور گھریلو آٹو مارکیٹ میں مختلف اسکیموں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کافی مقابلہ ہوگا۔ ٹیکسوں میں یہ کمی آئندہ آٹو پالیسی 26-2021کا ایک مختصر حصہ ہوگی لیکن توقع ہے کہ قیمتوں میں متوقع کمی پر اس کا خاص اثر پڑے گا۔یہ ابھی تک کی صرف تجاویز ہیں اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ وفاقی کابینہ ٹیکسوں میں کمی کے لیے کتنی منظوری دیتی ہے۔ حکومت مکمل طور پر بلٹ یونٹ (سی بی یو) پر اضافی کسٹم ڈیوٹی (اے سی ڈی) ، درآمدات پر مکمل طور پر دستک (سی کے ڈی) کٹس اور سی بی یو پر مقامی مینوفیکچرنگ اور ریگولیٹری ڈیوٹی (آر ڈی) کے ساتھ ساتھ ہائبرڈ سی بی یو کے تحت مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے۔
دوسری طرف حکومت کی طرف سے بڑے دعووں اور اعلانات کے بعدبالآخر بجٹ میں گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کا اعلان تو کر دیا گیا لیکن اب کار ساز ادارے ڈیلرز اسے عمل درآمد کرانے میں حیل و حجت سے کام لے رہے ایک ماہ تو نوٹیفیکشن میں دیر کر دی اوپر سے زیادہ اون منی بڑھا دی گئی اور اب جو گاڑی بک کروا رہا ہے اسے لال جھنڈی دکھائی جارہی ہے کوئی کمپنی اور کوئی شوروم گاڑی دینے کو تیار نہیں بہانہ آسان ہے کہ ہمارے پاس مانگ زیادہ ہے گاڑیاں ہیں نہیں۔ لہذا کچھ ماہ انتظار کریں یا بازار میں اون منی جو کئی گنا بڑھ گئی ہے وہ دیں اسی وقت گاڑی لیں کوئی سرکاری ادارہ انکو پوچھنے والا نہیں ہمارے ملک کا المیہ یہی ہے کہ صارفین کا تحفظ نہیں ہوتا اور ہر سیکٹر اپنی من مانی قیمت شرائط پر اپنی پروڈکٹ فروخت کرتا ہے۔
سیٹھ تو کماتے ہیں اس کا سارا بوجھ عام آدمی پر ڈل جاتا ہے اور اس بار بجٹ میں قیمتیں تو کم ہوئیں لیکن عام آدمی خوش نہیں اس کا استحصال جاری ہے ۔
اس بارے میں ہم نے کار سیکٹر سے وا بستہ افراد علی اصغر جمالی ، شہزادہ سلیم، شعیب خان ،سہیل اقبال اور رضوان گورا یہ سے یہ رائے جانی کہ وہ عوام کے تحفظات، گاڑیوں کی قیمتوں اور دیگر صورتحال پر کیا رائے رکھتے ہیں۔
شہزادہ سلیم اور شعیب خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قیمت میں اضافے کی بنیادی وجہ اجارہ داری ہے چند کمپنیوں کے مالکان ملی بھگت سے قیمت بڑھاتے ہیں ہمارے ہاں کوالٹی کنٹرول سسٹم کمزور ہے اس لیے کم کوالٹی والی گاڑی بازار میں بک رہی ہے صارف لاکھوں روپے زیادہ دے کر بھی لوکل گاڑی خرید رہے ہیں ۔حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔
پاکستان ایک کم آمدنی والا ملک ہے اس میں جان بوجھ کر گاڑی پر اون کلچر کو فروغ دیا گیا چند کمپنیوں کی اجارہ داری ہے ۔وہ پیداوار روک لیتی ہیں اور مارکیٹ میں طلب بڑھ جاتی ہے لہذا اون دینا پڑتا ہے پہلے یہ تھا کہ چند سال پہلے بڑی تعداد میں درآمدی گاڑی آتی تھی وہ ہماری مقامی طلب اور رسد کے فرق کو پورا کر دیتی تھی اور صارف کو فیصلہ کرنے میں آسانی تھی کہ وہ کون سی گاڑی بنا اون کے خریدے۔
شہزادہ سلیم نے کہا کہ حکومت نے قیمت کم کی ہے ۔اس سے ڈیلر تو کیا کوئی بھی مطمئن نہیں ہے آج سے تین چار سال پہلے بیس لاکھ والی گاڑی اب چالیس پچاس لاکھ میں مل رہی یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے ۔مجھے بتایا جائے کہ کیا ڈالر سے گاڑی بنتی ہے لوکل فیکٹریاں لگی ہیں پارٹس یہاں بنتے ہیں یہ جان بوجھ کر مفاد پرست قیمت بڑھا رہے ہیں یہ قیمت نامنظور ہے ہم بطور کاروباری طبقہ عام آدمی کے حق کے لئے اسے مسترد کرتے ہیں ، فوری قیمت مزید کم کی جائے ۔
سہیل اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت سابقہ گاڑی کی درآمدی پالیسی سے اربوں روپے کا ریونیو اکٹھا کرتی تھی وہ بند ہوا اور لوکل فیکٹریاں لگانے کا مقصد بھی پورا نہ ہوا عوام مارے گئے ۔
شہزادہ سلیم اور شعیب خان نے مزید کہا قیمت میں کمی کے لیے ڈالر کو قابو کرنا ہو گاگاڑیوں کی امپورٹ پالیسی کو بہتر بنایا جائے، اجارہ دارانہ نظام کو بہتر بنائیں کمپنیوں سے پوچھ گچھ کی جائے لیکن لگتا نہیں کہ ایسا ہو گا۔ وزیر اعظم کو تو دالوں گھی گوشت روٹی بجلی گیس کی مہنگائی دکھائی نہیں دے رہی یہ کہاں سے نظر آئے گی ان کو بتایا جارہا ہے کہ لوگ بڑے خوشحال ہیں گاڑیاں بک کروا رہے طلب بڑھ گئی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے آبادی کے تناسب سے آج بھی ہم دنیا سے گاڑی پیداوار میں بہت پیچھے ہیں کوالٹی خراب ترین ہے سڑکوں کا برا حال ہے کوئی نظام اچھا نہیں ہوا ۔
رضوان گورایہ کا کہنا ہے کہ لوکل مینو فیکچررز نے حکومت پر دبا ئو ڈالا اور امپورٹڈ گاڑیوں کی درآمد کی پالیسی کو تبدیل کروایا پہلے عام آدمی اپنے پاسپورٹ پر باہر سے گاڑی لے آتا تھا جو سستی پڑتی تھی اور یہاں پاکستان میں کار خریدنے والوں کے پاس آپشن تھی کہ وہ مہنگی اور کم کوالٹی والی مقامی گاڑی کی بجائے باہر سے لائی گئی اعلی گاڑی کم قیمت پر خرید سکیں لیکن ملی بھگت سے یہ سہولت عوام سے واپس لے گئی اس میں کار ساز مالکان ملوث تھے حکومتی اداروں سے ملی بھگت کر کے انھوں نے خونی رشتے کو لازم کر دیا ،اور اس میں شرط عائد کر دی گئی کہ اکا ئونٹ ٹو اکائونٹ ادائیگی ہو گی ،اس وجہ سے گزشتہ تین سال سے امپورٹڈ گاڑیوں کی پالیسی تبدیل ہو ئی اس سے لوکل مینوفیکچررز نے خود کو سٹینڈ کر لیاوہ بااثر ہوگئے ہیں اور من مانی کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ قیمتیں آسمان کو پہنچ چکی ہیں۔
سرکاری مانیٹرنگ اداروں کے افسران کوالٹی کو نظر انداز کر دیتے ہیں اوپر سے کورونا کو بہانہ بنا کر پیداوار بھی کم کر دی ہے اور قیمتیں بڑھا نے کے ساتھ اون منی بھی عائد کر دی ہے ۔انھوں نے کہا کہ اون منی کا تب تک خاتمہ نہیں ہو سکتاجب تک لوکل مینو فیکچررز مالکان پندرہ سے بیس روز میں گاڑی مالکان کو ڈلیور نہ کریں ،یہاں تو 2 ماہ سے لیکر آٹھ آٹھ ماہ تک گاڑی بکنگ کے بعد تاخیر سے آرہی ہے، کئی گاڑیاں تو چینی میکر ہیںوہ بکنگ اوقات کے بعد بھی نہیں آرہیں ،اس وقت چھوٹی گاڑی سے لیکر بڑی گاڑی تک کم ازکم ایک لاکھ سے لیکر 10لاکھ روپے تک اون منی ہے ۔
رضوان گورایہ نے اس موقع پر خوش خبری دی کہ حکومت اون منی کی حوصلہ شکنی کے لئے کار مینو فیکچررز پر جرمانہ عائد کرنے پر غور کر رہی ہے ،کاروں کی دیر سے فراہمی پر دس سے بارہ فیصد مارک اپ عائد کئے جانے پر غور ہورہا ہے اگر گاڑی 60 روز کے اندر صارف کو نہیں دی جاتی تو ان پرکائبور پلس 3 فی صد سود لازمی عائد کیاجائے گا انھوں نے کہا کہ ٹرکوں اور بسوں کی مجموعی صلاحیت 20ہزار ہے لیکن مجموعی پیداوار 10436ہے اور حالیہ پیداوار 3942رہی ہے ،یہ حال گاڑیوں کا بھی ہے۔
علی اصغر جمالی کا کہنا تھا کہ کرونا کی وباء سے مقامی کار ساز اداروں کی پیداوار میں کمی آئی جس سے ڈلیوری تاخیر کا شکار ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر بڑھنے کی وجہ سے ہم بھی مشکلات کا شکار رہے ہیں قیمتوں میں اضافہ ایک میکنزم کے ذریعے ہوتا ہے جس کے تحت ادارے ہمیں مانیٹر کر رہے ہوتے ہیں ہم پر تنقید کرنا تو آسان ہے لیکن ہمارے ساتھ ملکر مشکلات کا حل نکالنے کے لئے کوئی سامنے نہیں آتا۔ کار ساز اداروں نے اربوں روپے کی سرمایہ کی ہوتی ہے ہزاروں افراد کو روز گار دے رہے ہوتے حکومت کو سب سے زیادہ ٹیکس یہ صنعت دیتی ہے ہمیں سراہا جانا چاہئے نہ کہ تنقید کی جائے بہرحا ل یہ سب کا حق ہے کہ وہ اپنے حق کے لئے آواز بلند کرے۔
علی اصغر جمالی نے گاڑیوں کی فروخت پر پریمیم (اون منی) کے رجحان کے تدارک کے لیے حکومت کی جانب سے ٹرانسفر ٹیکس کے نفاذ کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے انڈسٹری اور صارفین دونوں کے لیے سود مند اقدام قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پریمیم کی وصولی مارکیٹ کا رجحان ہے جسے کسی ایک اقدام سے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا اس رجحان کے تدارک کی ذمہ داری حکومت اور گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں دونوں پر عائد ہوتی ہے ۔
ملک میں گاڑیوں کی پیداوار کے بارے میں بات کرتے ہوئے علی اصغر جمالی کا کہنا تھا کہ ملک میں گاڑیاں تیار کرنے کی پیداواری گنجائش میں دگنا اضافہ ہوچکا ہے اور اب پیداواری گنجائش 2لاکھ75ہزار گاڑیوں سے بڑھ کر 5لاکھ گاڑیوں کی سطح پر آچکی ہے جبکہ گاڑیوں کی ورائٹی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ کرونا سے نکلنے اور نئی آٹو پالیسی کے بعد پاکستان میں خوشحالی کا نیا دور آئے گا ۔معیشت کے ساتھ یہ سیکٹر قیمت میں کمی کے ساتھ نئی سرمایہ کاری اور روز گار کے مواقع بڑھیں گے ہمیں مثبت سوچنا چاہئے۔