معاون خصوصی برائے صحت پاکستان اور نامور ماہر متعدی امراض ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ اینٹی بائیوٹک ادویات، خاص طور پر ’Azithromycin‘ (جو کہ Azomax اور دیگر ناموں سے بازار میں موجود ہے)، کا کوویڈ19 کے علاج میں کوئی کردار نہیں ہے اور ڈاکٹروں کو یہ ادویات کورونا وائرس انفیکشن کے مریضوں کو دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
دی نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ اکثر مریض کورونا وائرس کا ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد اپنے طور پر بھی اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال شروع کر رہے ہیں جو کہ ان کی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی بائیوٹک ادویات کا وائرل انفیکشنز خاص طور پر کووڈ کے علاج کے لیے بے تحاشا استعمال کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ ادویات وائرل انفیکشنز کے علاج میں قطعاً کارگر نہیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے علاج کے لیے جاری کردہ نیشنل گائیڈلائنز اس حوالے سے بڑی واضح ہیں لیکن اس کے باوجود ان ادویات کا غیر ضروری استعمال کیا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق کورونا وبا کی آمد کے بعد پاکستان میں اینٹی بائیوٹک اور اسٹیرائڈ ادویات کے استعمال میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا ہے جس کے نتیجے میں ناصرف بیکٹیریا میں ان ادویات کے خلاف مزاحمت میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اسٹیرائڈز کے استعمال سے خطرناک بیماریوں خاص طور پر بلیک فنگس لگنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے آغا خان اسپتال کے ماہر متعدی امراض پروفیسر فیصل محمود کا بھی کہنا تھا کہ Azithromycin کا کورونا وائرس کے علاج میں استعمال فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بن رہا ہے، ڈاکٹروں خاص طور پر کنسلٹنٹس میں اس حوالے سے معلومات کی کمی کے باعث ان ادویات کو تجویز کیا جا رہا ہے، ماہرین کو چاہیے کہ اس حوالے سے نیشنل گائیڈلائنز کو فالو کریں۔
انڈس اسپتال سے وابستہ پروفیسر سہیل اختر اور ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا بھی یہی کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کو کوروناوائرس کے علاج کے لیے اینٹی بائیوٹک ادویات تجویز کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے جبکہ مریضوں کو بھی سیلف میڈیکیشن سے اجتناب برتنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے حکومت پاکستان اور محکمہ صحت سمیت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
عہد میڈیکل سینٹر سے وابستہ فارماسسٹ عمیمہ مزمل کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ اپنے طور پر اینٹی بائیوٹک ادویات خریدنے والے مریضوں اور ان کے اہل خانہ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، کورونا کے علاج کے لیے اینٹی بائیوٹک لینے والے افراد کو ڈاکٹروں سے ٹیلی کنسلٹیشن یا مشورے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے جب کہ ان کے ادارے کے فارماسسٹ مریضوں کو ادویات کے استعمال، ان کی ڈوز اور طریقہ کار کے حوالے سے مکمل معلومات فراہم کرتےہیں۔
ایک اور معروف فارماسسٹ اور پاکستان سوسائٹی آف ہیلتھ سسٹم فارماسسٹس کے صدر لطیف شیخ کا کہنا تھا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو ان تمام ادویات جن کا غلط استعمال کیا جارہا ہے، ان پر واضح وارننگ لکھ دینی چاہیے، خاص طور پر اینٹی بائیوٹک ادویات جن میں ایزومکس شامل ہیں، ان پر واضح ہدایات درج کی جانی چاہیے کہ یہ ادویات کورونا وائرس کے علاج میں مؤثر ثابت نہیں ہیں۔
اس حوالے سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ پہلے ہی ملیریا کی ادویات اور اینٹی بائیوٹک کے حوالے سے گائیڈ لائنز ایشو کر چکا ہے لیکن اگر ڈاکٹر اور ریگولیٹر مل کر مشترکہ گائیڈلائنز جاری کریں تو وہ مریضوں کے لیے بہت مددگار ثابت ہوں گی۔