وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں معیشت نے سنبھلنا شروع کر دیا ہے مگر ابھی استحکام سے فاصلے پر ہیں۔کپتان کھلاڑیں کو بدل بدل کر آزما رہے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اگر اگلا الیکشن بھی پی ٹی آئی نے جیت لیا تو تب تک کپتان کے کھلاڑی ایک مضبوط اور مربوط ٹیم میں بدل چکے ہوں گےاوریہ ٹیم کپتان کی سربراہی میں دنیا میں عزت دار ترقی یافتہ اور مضبوط معیشت کی پہچان کے طور پر اپنی شکاخت قائم کر چکی ہو گی۔
تب یقینا ًپاکستان کے پاسپورٹ کی عزت بہت زیادہ ہو گی اور لوگ یقینا ًواپس پاکستان آکر نوکریاں کرنے کے خواہش مند ہوں گے ۔کپتان کی معیشت پر فوکس نےانھیں بالآخر شوکت ترین اور ڈاکٹر وقار مسعود کوٹیم میں آزمایا اور یہ ایک بہترین کمبینیشن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ایک معیشت کو آگے بڑھانے کی جدوجہد کر رہا ہے اور دوسرا زیادہ سے زیادہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور صارفین کو ٹیکس کے سسٹم پر اعتماد کرنے پر دن رات ایک کررہا ہے ۔
معیشت کے انڈیکٹرز مثبت سمت میں بڑھ رہے ہیں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے اس سب میں بہت عرصے بعد ایس ای سی پی کے ریفامرز کاکلیدی کردار رہا ہے۔ موجودہ چئیرمین سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان عامر خان عمران خان کی ٹیم کے اچھے کھلاڑی ثابت ہوئے ہیں ۔انھوں نے آہستہ آہستہ اقدامات کرتے ہوئے مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کی واپسی کوممکن بنادیا ہے اس سال مارکیٹ میں نئے سرمایہ کاروں کا رحجان پچھلے سالوں کی نسبت بڑھا ہے اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ مارکیٹ کا لیکویڈ ہونا بھی رہا ہے ۔
بہت سی پرانی کمپنیاں بھی ایکٹو ہو گئی ہیں اور سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز بن گئی ہیں بہت سے لوگ ایکٹیوٹریڈنگ بھی کر رہے ہیں اور یہی سرمایہ کار مارکیٹ کی جان قرار پاتے ہیں پوری دنیا میں ایک بہت بڑی رونق مارکیٹ میں ایکٹو ٹریڈرز کی ہوتی ہے جو صبح شئیرز خریدتے ہیں اور شام کو بیچ کر گھر جاتے ہیں انھیں مارکیٹ میکر بھی کہا جاتا ہے انہی کے دم سے مارکیٹ میں والیم ہلچل اور سرمایہ کاروں کاا نٹرسٹ ہوتا ہے ،یہ لوگ اگر کسی دن کام نہیں کرتے تو مارکیٹ ڈل ہو جاتی ہے خریدار کو فروخت کنندہ اور فروخت کنندہ کو خریدار نہیں ملتا ،والیم ختم ہو جاتا ہے، بروکریج انکم، کیپیٹل گین ٹیکس ،ایس ای سی پی ٹیکس ا ور جی ایس ٹی تمام میں کمی آجاتی ہے ۔
آسان الفاظ میں کہیں تو مارکیٹ میکنزم کا وجود سٹاک مارکیٹ میں بالکل ایسے ہی ہے جیسے صحت مند خون کا وجود جسم میں ہوتا ہے ابھی گز شتہ چند ہفتوں میں مارکیٹ میں والیم ایک دم کم ہو گیا ہے اور بڑھتی ہوئی مارکیٹ میں کمی ہونا شروع ہو گئی ہے جب ہم نے مارکیٹ کے اہم کھلاڑیوں اور سرمایہ کاروں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ باقی سب تو ٹھیک ہے ملکی معیشت مضبوطی کی طرف گامزن ہے۔ کمپنیوں کے رزلٹ اور سمت درست جارہی ہے ٹیکس اکٹھا کرنے میں بھی بہتری آئی ہے ۔کمپنیوں کے منافع میں بھی اضافہ ہو اہے اس کے نتیجے میں ان کمپنیوں کی قیمتیں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں مگر ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کی شکایتیں بھی بڑھ رہی ہیں وہ لوگ اس بات کو برداشت نہیں کر پارے کہ اس حکومت کے دور میں مارکیٹ میں والیم انڈیکس اور شئیرز کی قیمتیں کیوں بڑھ رہی ہیں۔
اگر مارکیٹ میں والیم بڑھتا ہے تو وہ اس کو مصنوعی قرار دیتے ہیں اگر شئیر کی قیمت بڑھتی ہےتو وہ اسکو مصنوعی بائنگ قراردیتے ہیں اور اس سب کی شکایت کرتے پائے جاتے ہیںحالانکہ سٹاک مارکیٹس میں حصص کی قیمتیں ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول پر متعین ہوتی ہیں اور اسی اصول پر کاروباری حجم بھی بڑھتا ہے ،تبھی روزانہ پورا دن کوئی بھی شئیر کی مختلف اوقات میں مختلف ریٹ پر خرید وفروخت ہوتی ہے اسٹاک مارکیٹ وہ واحد مارکیٹ ہے جہاں پر مصنوعی کچھ بھی ممکن نہیں ہے جہاں پر ہر لمحہ خریدار اور سیلر دو متضاد آراء رکھتے ہیں۔ ایک کو شئیر سستا اور دوسرے کو شئیر مہنگا لگتا ہے اگر ایسا نہ ہو اور تمام لوگ ایک ہی شئیر کے بارے میں ایک ہی رائے رکھتے ہوں تو سب لوگ بائر ہوں اور سیلر کوئی نہ ہو اور مارکیٹ میں خرید وفروخت بند ہو جائے گی ۔
اس متضاد رائے کی وجہ انسانی نفسیات میں دوسرے سے مختلف سوچنا ہے ابھی مارکیٹ میں والیم میں کمی اور انویسٹر کا نہ ہونا اسکی بڑی وجہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج انتظامیہ کی طرف سے بعض بروکرز ،بروکریج ہائوسز اور انکے کلائنٹس کو الگ الگ نوٹسز بھجوائے گئے ہیں کہ آپ نے وہ شئیر کیوں فروخت کیا ،کیوں زیادہ خریدا اس کی وجہ بتائی جائے حالانکہ ایسا وہ کر نہیں سکتے ،اس لئے آج کل والیم انتہائی کم سطح پر آگیا ہے، جو کچھ عرصہ قبل ایک ارب روزانہ کی بلندترین سطح پر چلا گیا تھا، جس کی وجہ موجودہ حکومت اور عمران خان کا ویژن تھا معیشت بہتر ہو رہی ہے یہ سب کو نظر آرہا ہے، کمپنیوں کے منافع بہتر ہو رہے ہیں اور حکومت مختلف سیکٹرز کو کرونا میں مراعات دے رہی ہے یہ ایسی چیزیں تھیں جس کی وجہ سے کمپنیوں کے ریٹس بڑھے اور والیم بڑھا جو کئی سال بعد ہوا ہے ،
ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ اسٹاک مارکیٹ انتظامیہ رویےکی وجہ سے اکائونٹ کھلنے کی بجائے اب دوبارہ بند ہو رہے ہیں دنیا کی اکثر مارکیٹوں میں شئیرز بیچنے اورخریدنے کا کوئی ا صول متیعن نہیں ہے اس پر جتنے بھی سرمایہ کار ہوتے ہیں انکی الگ رائے ہوتی ہے اگر ہماری اسٹاک ایکسچینج والے بلا وجہ نوٹسز دیں گے، دخل اندازی کریں گے تو سرمایہ کار خود کو محفوظ تصور نہیں کرے گا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے سرمایہ کار مارکیٹ سے دور ہوگیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مارکیٹ گرنے کی ایک اور وجہ نئے سی جی ٹی رولز ہیں پراپرٹی اور شئیرز پر سی جی ٹی کا اطلاق الگ الگ ہورہا ہے جو درست نہیں ہے 2013 سے خریدے گئے شئیرزفروخت کرنے پر ساڑھے بارہ فی صد سی جی ٹی عائد کر دیا گیا ہے جو کہ پراپرٹی سے ڈبل ہے اس بارے میں بروکرز ایسوسی ایشن کا مطالبہ ہے کہ شئیرز لین دین اور پراپرٹی سی جی ٹی کو برابری کی سطح پر لایا جائے اس سے سرمایہ کاری کے رحجان میں اضافہ ہوگا اور مارکیٹ میں کاروباری حجم بڑھے گا۔
انھوں نے کہا کہ پوری دنیا میں اسٹاک مارکیٹ کو سٹہ بازی کے نام پر جانا جاتاہے اور اس میں سرمایہ کار مستقبل کو دیکھ کر خرید و فروخت کرتا ہے۔ یہ تاثر درست ہے کہ چند بڑے بروکرز مارکیٹ پر اثر ڈالتے ہیں اور قوانین کو بھی تبدیل کرا لیتے ہیں جس کا فائدہ عام آدمی کی بجائے وہ پہلے لے جاتے ہیں اور کماتے ہیں ۔ایس ای سی پی کا فرض ہے کہ وہ بھی اپنے اندر ایسی کالی بھیڑوں کا محاسبہ کرے اور مانیٹرنگ کا فول پروف نطام متعارف کرائے نہ کہ وہ بھی صرف نوٹسز پر زور دے اور کراچی اسٹاک مارکیٹ کی طرف سے نوٹسز کا بھی نوٹس لینا چاہیئے کہ بغیروجہ ہراساں کیا جانا بند کیا جائے ۔
بروکزر کا کہنا ہے کہ حالیہ صورتحال وزیر خزانہ شوکت ترین کے علم میں لائی جا چکی ہے انھوں نے اسٹاک ایکسچینج انتظامیہ کو تنبیہ کی ہے کہ سرمایہ کاروں کو ہراساں نہ کیا جائے سٹیک ہولڈرز سے مل بیٹھ کر مشاورت سے نوٹسز کا ایشو حل کیا جائے ضرورت پڑی تو وہ محرم کے بعد اجلاس بلائیں گے اور ذمہ داران کے خلاف کاروائی کا امکان بھی ہے ،انکا کہنا ہے کہ شوکت ترین سرمایہ کار دوست وزیر ہیں وہ کاروبار بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں۔
وزیرا عظم عمران خان کا ویژن بھی یہی ہے کہ نیب ایف آئی اے اور اسٹاک مارکیٹ ایس ای سی پی جیسے ادارے بزنس مین کو تنگ نہ کریں انھیں کام کرنے دیا جائے جب تک ٹھوس ثبوت سامنے نہ آجائیں نوٹس بازی بھی کم ہو نی چاہئے ایس ای سی پی کا تو یہ حال ہے کہ کوئی بھی بحران ہو کبھی کسی کی رپورٹ شائع نہیں کی گئی، 2008 میں سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے مجال ہے اتنے سال بعد بھی کوئی رپورٹ سامنے لائی گئی ہو۔
بروکرز نے وزیر خزانہ کو مشورہ دیا کہ خدارا اپنے مارکیٹ مشیروں کو تبدیل کریں جو انھیں غلط قسم کے مشورے دیتے ہیں اچھا بھلا کاروباری حجم بڑھا تھا اب اسے نظر لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیاسی معاملات اپنی جگہ وہ اونچ نیچ کے ساتھ چلتے رہتے ہیں لیکن کاروبار ی اداروں میں بے جا دخل اندازی ختم ہونی چاہئے کیونکہ اس سے نہ صرف سرمایہ کاری بلکہ اس کے ساتھ روز گاری میں بھی فرق پڑتا ہے۔
ہمارے ملک میں ویسے ہی نوجوان اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ کاروبار بڑھائے بنا ان کو روزگار دینا آسان نہیں ،،لہذا اسٹاک مارکیٹ میں نوٹسز کا خاتمہ ہونا چاہئے اور سسٹم کو فول پروف بنایا جائے۔
اس سلسلے میں اسٹاک ایکسچینج حکام کا کہنا ہے کہ کسی بروکر کے خلاف کوئی یکطرفہ کارروائی نہیں کر رہے اور نہ ہی ہراساں کیا جارہا ہے تاہم بعض کمپنیوں کے شئیرز میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ اور اچانک والیم بڑھنے پر نوٹسز بھجوائے گئے ہیں ان سے جواب مانگا گیا ہے کہ اس بارے میں وضاحت کر دیں تاہم کسی کو جان بوجھ کرٹارگٹ کرنا یا تنگ کرنا مقصد نہیں یہ معمول کی کارروائی ہے جواب تسلی بخش ہوا تو مزید کاروائی نہیں کی جائے گی اس بارے میں ایس ای سی پی اور کمپنیزرولز کو فالو کیا جاتا ہے۔ بورڈ ممبران کے علم میں لایا جاتا ہے اور متعلقہ مینجمنٹ کو خط لکھا جاتا ہے اسٹاک ایکسچینج اپنی حدود جانتی ہے حد سے باہر نہیں جاتے اگر کسی ممبر بروکر یا کمپنی مالک کو کوئی شکایت ہے تو ہمارے علم میں لائے ازالہ کیا جائے گا کسی کے کاروبار میں رکاوٹ نہ ڈالی ہے نہ آئندہ ڈالی جائے گی آزادانہ شئیرز کا لیں دین سب سرمایہ کاروں کا بنیادی حق ہے۔