پاکستان میں یوں تو ان دنوں مہنگائی نے ہر شعبے کو گھیرے میں لے رکھا ہے ،کھانے پینے کی اشیاٗ میں دالیں، چاول ،مصالحہ جات ،آئل ،گھی ،دودھ ،پھل ،سبزیاں اور گندم اور آٹا شامل ہے۔یہ سب اس وقت سابقہ سالوں سے کہیں زیادہ قیمت پر فروخت ہو رہی ہیں اور لگ رہا ہے کہ اگر ڈالر اسی طرح بڑھا اور زرعی پیداوار ہم نے نہ بڑھائی تو مہنگائی روکنے کی کوششیں ناکام ہوں گی۔
آگے چونکہ دو سال بعد الیکشن ہونے ہیں لہذا یہ حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں مہنگائی پر قابو پانے کو سرفہرست رکھے اور عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے بنیادی اصلاحا ت لائے ۔
کھانے پینے کی ان سب میں سے اگرکسی آئٹم سے لوگ زیادہ پریشان ہوتے ہیں اور حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے تووہ گندم اور آٹا ہوتا ہے جس سے ہر گھر میں روٹی کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور چونکہ ہر گھر صبح دوپہر اور رات کوآٹے کا استعمال کرتا ہے لہذا لوگ شور مچاتے ہیں وزیرا عظم عمران خان جو مسلم لیگ ن کی حکومت کو برا سمجھتے ہیں اور ہر تقریر میں ان کا ذکر کرنانہیں بھولتے ان کو چاہئے کہ میاں شہباز شریف کے ادوار پر نگاہ ڈالیں تو ان کے دور میں روٹی کی قیمت کئی سال تک دو روپے رہی اس پر سبسڈی برداشت کی جاتی رہی۔ لیکن اب پی ٹی آئی کے دور میں آٹے کی قیمت کو پر لگے ہوئے ہیں اور آٹے کی قیمت اچانک بڑھا دی جاتی ہے چاروں صوبوں میں گندم اور آٹے کی قیمت پر وہ چیک اینڈ بیلنس نہیں رہا جو نواز شریف دور میں تھا اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ موجودہ صوبائی حکومتوں میں بیٹھے وزرائے اعلی کی معاملات پر گرفت کا نہ ہونا اور محکمہ خوراک اور ضلعی انتظامیہ کی کمزوریوں کا بھی پورا عمل دخل ہے کہ روٹی دس روپے نان 15 روپے اور آٹا تھیلہ 1180 سے 1200 روپے پنجاب میں بک رہا ہے ،موجودہ حکومتی پالیسیوں پر نظر ثانی نہ کی گئی تو اس کی قیمت اب رکنےو الی نہیں۔
اس صورتحال پرعاصم رضا چئیرمین فلور ملز ایسوسی ایشن پنجاب کہتے ہیں کہ حکومت ہمیشہ اس وقت مداخلت کرتی ہے جب مارکیٹ ڈرائی ہو جاتی ہے یا اپنے مقرر کردہ نرخوں سے آٹے کی قیمت تجاوز کرنے لگتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس سال نئی فصل کے موقع پر سرکاری گندم 1400 روپے من سے بڑھ کر 1800 روپے من خریدی گئی ہے ۔
گزشتہ سال کو مدنظر رکھیں تو اس سال گندم کی اجرائی قیمت 1875 روپے من بنتی ہے مارکیٹ میں اس لحاظ سے 20 کلوآٹے کے تھیلہ کی قیمت 1070 روپے بنتی ہے مارکیٹ ڈرائی ہونے سے اب یہ گندم بازار میں مہنگی ہونے کیو جہ سے 20 کلو کا تھیلہ 1180 روپے سے 1200 روپے میں فروخت ہو رہا ہے جو کہ عوام پر یقیناً بوجھ ہے ۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے اس قیمت کوبڑھنے سے روکنے کے لئےبروقت حکومت کو خط لکھ دیا تھا اور بتادیا تھا کہ سرکاری گوداموں سے گندم کا اجرافوری کیا جائے لیکن سیکرٹری خوراک نے اس پر کوئی اقدام نہ کیا انھوں نے کہا کہ اگرچہ ہمارے پاس وافر سٹاکس موجود ہیں مارکیٹ ڈرائی ضرور ہے لیکن گندم کی قلت نہیں،
اس میں کوئی شک نہیں کہ گندم وافر ہے25لاکھ ٹن گندم پچھلے سال سے زیادہ ہے ۔ملوں کے پاس ساڑھے 8لاکھ ٹن پرائیویٹ گندم موجود ہے ۔ پچھلے سال یہ بھی نہیں تھی۔ حکومت نے پچھلے سال دس لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی۔ پنجاب حکومت کے پاس اس وقت 40 لاکھ ٹن گندم موجود ہے پاسکو کے پاس 8 لاکھ ٹن ہے سندھ کے پاس 11 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر ہیں اسطرح ملک میں 60 لاکھ ٹن کے ذخائر کافی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس سال گندم کی فصل کی پیداوار 2 کروڑ 78 لاکھ میٹرک ٹن رہی گزشتہ دو سالوں میںگندم کی فصل کا سائز کم تھا جس وجہ سے 37 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑی ،لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا ،انھوں نے بتایا کہ ملک میں انسٹالڈ کپیسٹی 2کروڑ60 لاکھ ٹن ہے لیکن ہم صرف 60 ہزار ٹن استعمال کررہے ہیں لہذا ہماری وزیر اعظم عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ اس پالیسی کی اجازت دیں جس کا وعدہ کیا تھا اس پر عمل درآمد ہونا باقی ہے اس کے مطابق باہر سے گندم منگوانے میں ڈیوٹی فری پالیسی دی جائے اس کے علاوہ گندم کی خریداری پر چارفیصد کے حساب سے ود ہولڈنگ ٹیکس واپس لیا جائے تاکہ عوام کو سستا آٹا مل سکے۔
پنجاب کے سینئر وزیر خوراک عبدالعلیم خان کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں گندم وافر مقدار میں موجود، کوئی قلت نہیں، مناسب وقت پر گندم ریلیز کرنے کا فیصلہ کریں گے وزیر خوراک نے کہا کہ ا س سال گندم کی بمپر فصل ہوئی ہے،مارکیٹ میں وافر گندم موجود ہے اس لئے ناجائز منافع خوری کی اجازت نہیں دینگے.
وزیر خوراک نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے گزشتہ سال گندم پر 85ارب روپے کی خطیر رقم کی سبسڈی دی انھوں نے کہا کہ ہماری حکومت کا ویژن ہے کہ عوام کو بنیادی استعمال کی اشیاٗ کی فراہمی سستے داموں یقینی بنانا ہے دنیا بھر میں مہنگائی ہوئی ہے لیکن پاکستان میں ابھی اتنی مہنگائی کا اثر حکومت نے پڑنے نہیں دیا ہماری کوشش ہے کہ میکنزم کو بہتر بنائیں ذخیرہ اندوزوں سے سختی سے نمٹا جائے اور عوام کو سستا وافر آٹا ملتا رہے ۔