• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعد کچھ ممالک تو اس لئے پریشان ہو گئے کہ انہیں افغانستان میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس رسوائی میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا اگر پاکستان ہاتھ نہ پکڑتا۔ 

مغربی ممالک کے لئے انتہائی پریشان کن لمحات میں پاکستان نے اپنی روایتی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا، مشکل ترین حالات میں مغربی ملکوں کی سہولت کاری کرتے ہوئے ان کے شہریوں کو کابل سے بحفاظت نکالا۔

امریکہ، برطانیہ سمیت بہت سے ممالک پاکستان کے شکر گزار بن گئے۔ کچھ تو شکر گزاری کا عملی مظاہرہ کرنے کے لئے پاکستان آ کر حاضریاں لگواتے رہے، پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت بہت اہم بن گئی۔ اقوامِ متحدہ بھی درخواست دہندگان میں شامل ہو گئی۔

اس تمام صورتحال میں ایک ملک لگاتار روتا رہا، اس کا میڈیا بھی چیختا رہا، جس دن صبح سویرے جنرل فیض حمید نے کابل میں قدم رکھا، اس دن تو ہندوستان کی پریشانی ناقابلِ بیان تھی حالانکہ جنرل فیض حمید نے یہ دورہ طالبان شوریٰ کی دعوت پر کیا، یہ بات بھی درست کہ جب لوگ کابل سے بھاگ رہے تھے، ہر طرف خطرات ہی خطرات تھے، ان حالات میں کوئی بھی غیرملکی اہم شخصیت کابل جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

ایسے مشکل حالات میں ایک پاکستانی جرنیل نے ہمت دکھائی اور وہ کابل چلا گیا، ممکن ہے انہوں نے وہاں بابر بادشاہ کے مزار پر حاضری دی ہو اور اپنے جدِامجد کو بتایا ہو کہ آپ کے بیٹے آج بھی بہادری کی مثالیں رقم کر رہے ہیں۔ 

پاک فوج کے جرنیل نے کابل میں چائے کا کپ کیا پی لیا پورے بھارت میں آگ لگ گئی۔ ویسے بھی چائے والی تصویریں بھارت کی چھیڑ بن گئی ہیں، وہ تو ابھی تک ابھینندن والی چائے کا ذائقہ نہیں بھولے تھے کہ ایک اور چائے والی تصویر کابل سے آ گئی۔ 

چونکہ انڈیا میں چائے والا وزیراعظم ہے اس لئے چائے ہی سے پورے ملک کی پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ امریکی تو بس اپنی ہار اور سرمائے کے لٹ جانے پر پریشان ہیں مگر بھارت کئی حوالوں سے پریشان ہے۔ چائے تو صرف ایک حوالہ ہے، کھربوں ڈالرز ڈوبنے پر بھارت کے آنسو نہیں رک رہے۔

ان کا چہیتا اشرف غنی بھاگ گیا۔ دنیا پاکستان کی تعریفیں کیوں کر رہی ہے؟ کئی اہم ممالک کے ذمہ دار افراد پاکستان کے دورے کر رہے ہیں اور ہمیں کوئی پوچھ ہی نہیں رہا، بھارتی ریاست سوچتی ہے کہ ہمارے بندے جہاں سے جان بچا کر بھاگ آئے، ایک پاکستانی جرنیل وہاں جا کر چائے کی چسکیاں لے رہا ہے۔

پاکستان میں بھی کچھ سیاسی پارٹیاں، جن کے سر پر بھارت کا بھوت سوار رہتا ہے، انہیں بھی سانپ سونگھ گیا ہے، وہ تو بول ہی کچھ نہیں رہے، بعض کی آسیں امیدیں اس قدر ٹوٹی ہیں کہ ان کے افراد اب دوسری پارٹیوں میں جگہ تلاش کر رہے ہیں، دو چار نے تو اس خاکسار سے بھی رابطہ کیا کہ کسی طریقے سے ہماری جگہ بنوا دو۔ ایک کابل نے پتہ نہیں کس کس کو پریشان کر دیا ہے؟

افغانستان کی حالیہ صورتحال پر ہمارے کچھ دیسی لبرلز یعنی موم کے لبرلز بہت زیادہ پریشان ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد عورتوں کا کیا بنے گا، بچوں کا کیا بنے گا؟ انہیں عورتوں کے حقوق کی پریشانی بہت زیادہ حد تک لاحق ہے۔ 

کاش یہ لوگ افغان عورتوں اور بچوں پر ہونے والی بارود کی بارش پہ بھی پریشان ہوتے، انہیں کشمیری عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر عورتوں کے حقوق یاد نہیں آتے، انہیں اس وقت بھی خواتین کے حقوق یاد نہیں آتے جب اسرائیلی فوجی فلسطینی عورتوں کی بےحرمتی کرتے ہیں، انہیں مارا جاتا ہے.

فلسطین میں بچوں پر ہونے والے مظالم پر بھی حقوق کے یہ ٹھیکیدار خاموش رہتے ہیں، انہیں شام، عراق، لیبیا اور یمن کی وہ عورتیں یاد نہیں رہتیں جن کے بچوں کو ان کے سامنے مار دیا جاتا ہے، جن پر بےبسی کے عالم میں ظلم ڈھایا جاتا ہے، انہیں خوراک اور دوائیوں کے لئے ترستی عورتوں پر بھی خواتین کے حقوق یاد نہیں آتے۔ 

انہیں اس وقت افغان عورتوں کے حقوق یاد نہ آ سکے جب انہیں بےگھر کیا جا رہا تھا، جب ان کی گلیوں میں موت اتاری گئی، جب ان کے گھروں پر قبضے کر لئے گئے۔ 

ہمارے دیسی لبرلز عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کشمیر، فلسطین، عراق، شام اور یمن کو تو بھول ہی جاتے ہیں، انہیں انڈیا اور امریکہ میں وہ عورتیں بھی یاد نہیں آتیں جنہیں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، عورتوں پر ظلم و زیادتی کے حوالے سے پہلی دو پوزیشنیں ان دونوں کے پاس ہیں مگر موم کے یہ لبرلز ان تمام حقائق پر خاموش رہتے ہیں، ان کی یہ خاموشی منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟

میرے سامنے مغربی ممالک کے افراد کی ایک تصویر ہے، یہ ایک اہم کانفرنس ہو رہی ہے، اس میں افغانستان کی تازہ صورتحال میں عورتوں کے حقوق پر غور ہو رہا ہے، عورتوں کے حقوق کے لئے ہونے والی اس کانفرنس میں کوئی ایک عورت بھی شریک نہیں، یہ تو حال ہے ہمارے دیسی لبرلز کے حسین آقائوں کا۔

 باقی آپ خود سمجھ دار ہیں کہ یہ لوگ کونسی باتوں کو عورتوں کے حقوق کہتے ہیں۔ جن عورتوں کے حقوق کے لئے عالمی ٹھیکیدار پریشان ہیں، ان خواتین نے کابل میں طالبان کے حق میں مظاہرہ کر کے تمام ٹھیکیداروں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ 

افغان عورتوں کا کہنا ہے کہ وہ طالبان دورِ حکومت میں خود کو زیادہ محفوظ تصور کرتی ہیں، اس دور میں ہم ایسا لباس پہنتی ہیں جو اعلیٰ روایات کا پاسدار ہے، جب ہمیں کوئی مسئلہ نہیں تو ہماری خاطر عورتوں کے حقوق کے ٹھیکیدار کیوں پریشان ہیں؟

ہمارے دیسی لبرلز کا بھی ایک مسئلہ ہے، انہیں اعلیٰ روایات کی امین کسی بھی حکومت سے ڈر لگتا ہے، انہیں انڈیا اور پرو انڈین سیاسی پارٹیوں سے بڑی لگن ہے، انہیں پاکستانی فوج سے بھی کوئی مسئلہ ہے، انہیں دنیا کی ناانصافیاں پسند ہیں مگر انصاف سے خوف آتا ہے، ایسے میں ٹھیکیدار طالبان طرزِ حکومت سے اس لئے پریشان ہیں کہ ان کی محفلوں کی رنگینی ختم ہو جائے گی، دراصل یہ رنگینی ہی ان کے لئے عورتوں کے حقوق ہیں۔ 

بقول خاکسار ؎

ترے لبوں پر کیسا شکوہ آیا ہے

کون تھا جس نے تیرے خواب بکھیرے تھے

تازہ ترین