شہباز شریف سخت بیانیے کے مخالف

January 20, 2022

طویل عرصہ ہوا ملک کی سیاسی صورتحال غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے سیاسی بحران نہ صرف موجود ہے بلکہ شدت اختیار کر گیا ہے لگتا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں کوئی قطعی اور واضح صورتحال نکل آئے گی بڑے عرصے سے اپوزیشن حکومت ہٹانے کی تگ ودو میں مصروف عمل ہے لیکن امید بندھنے کے ساتھ ہی کوئی ایسا عمل واقع ہو جاتا ہے کہ سارے عمل کے دوران نواز شریف بیانیے کو مدہم اور اکثر خاموشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے تاکہ مقتدرہ قوتیں غیر جانبدار ہیں لیکن پارلیمینٹ میں گنتی کے دوران ان کی امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں اور وہ ایک بار پھر ارکان اسمبلی کو ٹیلی فون آنے کے الزامات کا سہارا لیتے ہیں اس ابہام اور دورنگی کیفیت نے عوام کو الجھا کر رکھ دیا ہے مہنگائی اور گرتی ہوئی معیشت کے تقاضے کچھ اور ہیں لوگ مایوس اور بے بس نظر آ رہے ہیں۔

ڈیل اور نہ ڈیل کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس کی بازگشت روز سنائی دیتی ہے اپوزیشن اپنے لائحہ عمل اور حکمت عملی میں ہرگز یکسو نظر نہیں آتی اپوزیشن کی جماعتیں مختلف طریقہ کار اور حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں بہت سو کو وہ ہاتھ جو تحریک انصاف کے سر پر ہے اپنے سر پر رکھے جانے کی خواہش ہے وہ کچھ عرصہ اس خواہش کی تکمیل میں مقتدر قوتوں کو ہدف تنقید بنانے سے باز رکھتے ہیں لیکن جب خواہش بھر نہ آتی ہے تو پھر تنقید اور الزامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔

اب پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم احتجاج اور مارچ کی منصوبہ بندی کر رہی ہے دیکھتے ہیں کہ اس میں کتنی گہرائی اور اخلاص ہے کہیں یہ مقتدر قوتوں کی توجہ حاصل کرنے کا ذریعہ ہی نہ ہو اور یہ قوتیں ایک بار پھر اپوزیشن کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگا دیں، ڈیل کی باتیں کرنے والے دراصل خود بھی دھوکہ کھا رہے ہیں اور عوام کو بھی دھوکے میں رکھ رہے ہیں۔

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے منی بجٹ اور سٹیٹ بنک بل کی منظوری کے وقت قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور ٹھوس دلائل دیئے لیکن اعدادو شمار ان کے حق میں نہ تھے بقول شاہد خاقان عباسی تحریک انصاف کے اکان کی کافی تعداد منی بجٹ کے حق میں ووٹ دینے سے گریزاں تھی لیکن آخری لمحات میں ٹیلی فون آنے پر وہ مجبور ہوگئے سمجھ ہی نہیں آتی یہ کیسی سیاست اور جمہوریت ہے ؟

ارکان اسمبلی کا کردار کس قدر کمزور ہے شہباز شریف ابھی بھی درمیانی راستہ نکالنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ سخت بیانیہ مسلم لیگ اور ملک عوام کیلئے درست نہ ہے اسی کشمکش اور ابہام میں عوام بے حال ہو گی اور معیشت اس نہج پر پہنچ گئی کہ یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ آئندہ آنے والی حکومت اس کو سنبھال بھی سکے گی یا حالات اور ابتر ہو جائیں گے۔ مہنگائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے پٹرولیم مصنوعات میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے کسانوں کو کھاد دستیاب نہیں حکمرانوں کے مشیروں کے بودے دلائل جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ خوشحالی کی نشانیاں ہیں۔

اب فواد چودھری اور شہباز گل ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن کے رہنما ان قوتوں سے مل رہے ہیں جنہوں نے بقول شیخ رشید تحریک انصاف کے سر پر ہاتھ رکھا ہوا ہے فواد چودھری اور شہبازی گل کے الزام کا ایک پہلو تو قابل مذمت ہے لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قوتیں سیاست میں ملوث ہیں دوسرے معنوں میں وہ قوتوں پر الزام عائد کر رہے ہیں ۔

مری سانحہ کو دو ہفتے گزرنے کو ہیں وزیر اعلیٰ کو اس واقع کی رپورٹ پیش کر دی گئی یہ نااہلی اور بدترین گورننس کا شاخسانہ ہے اس میں محض انتظامیہ کو موردالزام ٹہرانا ناانصافی ہو گی اس میں بڑے ناموں کو بھی ذمہ دار قرار دیا جانا چاہئے تھا غفلت اور کوتاہی محض انتظامیہ کی ہیں آخر بتایا جائے کہ کمشنر گوجرانوالہ کو بعض الزامات کےتحت ہٹایا گیا تھا ایک اچھی اور اہم جگہ مری کس نے اور کیوں لگایا ؟

مری سانحے کے بعد فوری طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب ایکشن لینے سے قاصر رہے اگر ایسا ہوتا تو حکومت پر تنقید میں کچھ کمی آ جاتی ہوٹل مالکان جنہوں نے بے حسی اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا ان کے ہوٹل تک سیل نہ کئے گئے ۔ ایسے واقعات لوگوں کو شہباز شریف دور کی یاد دلا دیتے ہیں شہباز شریف نے درست کہا کہ اس طرح کے واقعات لوگوں کو ماضی کی حکومت اور موجودہ حکومت کا موازنہ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں مہنگائی امن وامان معیشت اور ترقیاتی کاموں کا موازنہ کرکے کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔

شہباز شریف کا یہ کہنا کہ حکمرانوں کیلئے میری ذات ایک ڈرائونا خواب کی مانند ہے دراصل شہباز شریف کی درمیانہ روی اور طاقتور حلقوں سے تعلقات حکمرانوں کو بے چین اور خوفزندہ رکھتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں خیبر پختونوا میں تحریک انصاف کی شکست نے بھی سیاسی ہلچل پیدا کی ہے حکمران جماعت دوران کے اتحادی پریشان اور عوام کی رائے سے خوفزدہ ہو گئے بہت سے ارکان نئی اڑان کیلئے پرتول رہے ہیں بلدیاتی انتخابات میں مہنگائی بیروزگاری اور معیشت کی زبوں حالی کا ردعمل ضرور آئے گا ان انتخابات سے فرار کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں یہ انتخابات حکمران جماعت اور ان کے اتحادیوں کیلئے بڑا امتحان ہونگے۔

عثمان بزدار بلدیاتی معاملات کے چمپئن سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی سے بار بار مشاورت کرتے ہیں اس ضمن میں وہ حکومت کا بڑا سہارا بنے ہوئے ہیں ان کی اہمیت اور حیثیت اس صورتحال میں اور بھی بڑھے گی بہت ساری چیزیں چودھری پرویز الٰہی کے کنٹرول میں ہیں ۔ پہلے سیکرٹری بلدیات نے بلدیات کے حوالے سے جو مسودہ تیار کیا تھا اور پنجاب حکومت کو بھیجا تھا اس میں کافی حد تک عوامی خواہشات اور قانونی نکات شامل تھے اس وقت کے سیکرٹری بلدیات کی کوشش اور خواہش تھی کہ بلدیاتی انتخابات پنجاب میں مارچ 2022ء تک ہو جائیں۔

اس بات کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا تھا لیکن ان کو تبدیل کر دیا گیا صوبے بھر میں بلدیاتی نمائندوں کی بحالی سے قبل بڑی کارپوریشنوں کے ایڈمنسٹریٹر ہوتے تھے جبکہ نئے مسودہ میں ان کے بجائے ڈپٹی کمشنروں کو میٹرو پولیٹن کارپوریشنوں کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا ہے کمشنر اور سیکرٹری کی سطح پر افسران کو اختیارات کی محرومی کا دھچکا لگا ہے ۔