اسلام آباد ہائیکورٹ: صحافیوں کے حقوق، قانون سازی کیس، سیکرٹری اطلاعات طلب

January 27, 2023

اسلام آباد (خبر نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کیلئے قانون سازی کی درخواست پر سیکرٹری وزارت قانون اور سیکرٹری وزارت اطلاعات کو 6فروری کو طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے کہ جب عدالتی فیصلہ آ جائے تو وہ پبلک ڈومین میں آ جاتا ہے ، تبصرے کیلئے الفاظ کا چناو درست ہونا چاہئے۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ایف یو جے اور اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔ سینئر صحافی و اینکر پرسن حامد میر بطور عدالتی معاون جبکہ پٹیشنر اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے سیکرٹری حسین احمد ، سینئر نائب صدر ذیشان سید اور سابق صدر اویس یوسف زئی اپنے وکیل عمر اعجاز گیلانی ایڈووکیٹ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ پی ایف یو جے کی جانب سے عادل عزیز قاضی ایڈووکیٹ اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے وکیل نے بھی عدالت کی معاونت کی۔ عمر اعجاز گیلانی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے وزارت اطلاعات کو ترمیمی بل کا مجوزہ ڈرافٹ تیار کر کے بھجوا دیا ہے جو منسٹری میں سیکشن افسر کو وصول کروایا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اخباری ملازمین کیلئے آئی ٹی این ای کا ایک فورم کام کر رہا ہے ، قانون سازی کے بعد الیکٹرانک میڈیا کو بھی شامل کر کے اس کا دائرہ اختیار بڑھایا جا سکتا ہے ، ویسے معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ مجھے نیوزپیپر والا قانون بھی آج تک سمجھ نہیں آیا کہ وہ ہے کیا؟ چیئرمین آئی ٹی این ای بھی قانون سازی کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور انہوں نے بھی ڈرافٹ تیار کر رکھا ہے۔ وکیل نے کہا کہ آئی ٹی این ای میں صرف چیئرمین ہیں ، ممبر نہیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ابھی آئی ٹی این ای میں ممبرز اور بنچز کا تصور بھی دیا جا رہا ہے ، مسئلہ نیت کا ہے ، کسی کو اس کام کیلئے رٹ پٹیشن میں آنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے ، حکومت کو خود احساس کرکے ان چیزوں کو کرنا چاہئے ، بہتر ہے پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو جائے۔ حامد میر صاحب بھی آئے ہوئے ہیں ، وہ میڈیا انڈسٹری سے وابستہ ہیں ، بہتر بتا سکتے ہیں۔ حامد میر نے کہا کہ میں الیکٹرانک میڈیا کیلئے قانون سازی کے حق میں ہوں۔ سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مجھے کراس میڈیا کے حوالے سے ایک بڑی اسائنمنٹ دی تھی۔ تحریری گزارشات جمع کرا چکا ہوں ، کراس میڈیا کے حوالے سے بھی اپنی رائے دے چکا ہوں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ صحافیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کا بھی ایشو ہے، ڈیڑھ دو لاکھ روپے کے بقایا جات کیلئے صحافی سالوں تک ٹریبونل چکر لگاتے ہیں۔ حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ اکثر صحافیوں کے پاس تو تحریری طور پر بھی ملازمت کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ پیمرا کو قانون میں اختیار دیا گیا ہے کہ وہ صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔