لاہور،اسلام آباد (نیوزڈیسک، نمائندہ جنگ) ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے حوالے سے کیس میں دی نیوز کے صحافیوں پر فرد جرم عائد کرنے کے فیصلے پر مایوسی ظاہر کی ہے۔
28 دسمبر 2021 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے توہین عدالت کے مرکزی ملزم کے علاوہ میڈیا کے تین ارکان جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمنٰ، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور ایڈیٹر انوسٹیگیشن انصار عباسی کے خلاف وہ بیان حلفی رپورٹ کرنے پر فرد جرم کا حکم دیا تھا۔
جس میں گلگت بلتستان کے چیف جج رانا شمیم نے الزام لگایا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ وہ 2018 کے عام انتخابات تک نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی ضمانت نہیں ہونے دیں گے۔
ایچ آر سی پی کے بیان میں کہا گیا کہ آزادی صحافت کا تحفظ اور صحافیوں کو مقتدر لوگوں کو ذمہ دار قرار دینے کی اجازت دینا اتنا ہی عوامی مفاد میں ہے جتنا عدلیہ کو بیرونی دباؤ سے محفوظ رکھنا۔ہم معزز عدالت سے استدعا کرتے ہیں کہ مذکورہ فیصلہ منسوخ کیا جائے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسٹیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ )نے بھی سینئر صحافی انصار عباسی اور ان کے ادارے کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انصار عباسی اور ایڈیٹرانچیف جنگ میڈیا گروپ میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ایک تصدیق شدہ خبر شائع کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی ختم کرے۔پلڈاٹ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کا خیال ہے کہ میڈیا کی آزادی کے تحفظ کے لیے کسی بھی صحافی کو خبر رپورٹ کرنے پر معزز عدالتوں کی طرف سے سزا نہیں دی جانی چاہیے۔
انصار عباسی نے ایک صحافی کی حیثیت سے مفاد عامہ کی خبروں کی رپورٹنگ کرنے کا اپنا فرض نبھایا۔
انہوں نے اپنی صحافتی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے نہ صرف اس خبر کی تصدیق کی بلکہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان کا نقطہ نظر بھی شامل کیا اور شائع کیا۔ خبروں میں کہیں بھی معزز عدلیہ کی توہین نہیں کی اور نہ ہی دکھائی گئی۔
انصار عباسی،عامر غوری اور میر شکیل الرحمٰن کے خلاف توہین عدالت کے الزامات عائد کرنے سے میڈیا کی آزادی اور عدلیہ کی آزادی کو شدید نقصان پہنچے گا ۔
پلڈاٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز چیف جسٹس اور معزز جج صاحبان سے اپیل کرتا ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی اور میڈیا کی آزادی کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انصار عباسی اور جنگ میڈیا گروپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کریں۔