وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے تعلق رکھنے والے سابق وزرائے خزانہ کی طرح عوام کو یہ خوش خبر ی سنا دی ہے کہ منی بجٹ سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہو گا اور غریب عوام پر بوجھ نہیں ڈالا گیا ہے عوام بے چارے تو پس کر رہ گئے ہیں ان میں کھڑا ہونے کی سکت نہیں نئے سال کا پہلا تحفہ یہ ملا کہ پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا حالانکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے ۔
حکومت نے بجلی اور ایل پی جی کی قیمتوں میں جو معمولی کمی کی تھی اسکی کسر پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں بڑھا کر نکال لی گئی ، سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کیلئے عوام پر کم اور اسٹیبلشمنٹ پر زیادہ انحصار کرتے ہیں اور بڑے فخر سے یہ کہتی ہیں کہ ہماری ڈیل ہو گئی ہے آئندہ حکومت ہماری ہو گی ، با لخصوص مسلم لیگ (ن) کے قائدین تو بڑے فخر سے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہو گئی ہے اور ان ہائوس تبدیلی آرہی ہے اور وفاق میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز ہو نگے اور میاں نوازشریف بھی اس ڈیل کے تحت جنوری میں واپس آرہے ہیں وہ ایک ماہ جیل میں رہنگے اور پھر انکے کیس ختم ہو جائیں گے اور وہ چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن جائیں گے۔
یہ سب باتیں بالکل شوشہ ہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی کی ڈیل نہیں ہو رہی ہے یہ سب افواہیں اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو سیا ست سے بالکل الگ تھلگ رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اسکا ثبوت کنٹونمنٹ بورڈ ضمنی انتخابات اور کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات ہیں۔ درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کی باتیں اپنے ارکان پارلیمنٹ پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کو متحد رکھنے اور بیورو کریسی کو ڈرانے کیلئے کی جاتی ہے کہ خبر دار ہمارے خلاف زیادہ آگے نہ بڑھنا ہم اقتدار میں آرہے ہیں ،میاں نواز شریف کو تو جلد یہ دیر برطانیہ چھوڑنا پڑے گا ، جب تک انہیں یقین نہیں ہو جاتا انکی سزا معاف ہو گی انکے پاکستان میں آنے کے امکانات معدم ہیں وہ کسی اور ملک میں جا سکتے ہیں انکی سزا کے خاتمے کیلئے سپریم کورٹ بار نے کوئی پٹیشن تیار کررکھی ہے جسکے جلد دائر ہونے کا امکا ن ہے۔
ادھر پیپلزپارٹی نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی ان ہائوس تبدیلی کیلئے تیار نہیں نہ وہ اسمبلیاں توڑنے جانے کے حق میں ہیں نہ ہی وہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دے گی کیونکہ ان ہائوس تبدیلی سے تو سب کچھ مسلم لیگ ن کو ملے گا انہیں کیا ملے گا اور مسلم لیگ مرکز اور پنجاب میں اقتدار میں آگئی تو پیپلزپارٹی کا پنجاب میں صفایا ہو جائے گا جبکہ آصف علی زرداری روز بلاول بھٹو پنجاب میں قدم جمانے اور جوڑ توڑ کر نے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں لہذا یہ وزیر اعظم عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ انکی حکومت گرتے گرتے بج جاتی ہے،مولانا فضل الرحمن نے بھی یو ٹرن لے لیا ہے وہ بھی الیکشن پر زور نہیں دے رہے۔
پیپلزپارٹی نے مہنگائی کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا مگر وہ اپنے کارکنوں کے علاوہ عوام کو جمع نہیں کر سکی دوسری بات یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ملک کی معاشی حالت تباہ کن ہے ۔تو پھر کیسے اپوزیشن جماعتیں اقتدار میں آکر مہنگائی کو کنٹرول کر لیں گی لوگوں کو روز گار دیں گی ، آئی ایم ایف سے مدد نہیں لینگی ،یہی وجہ ہے کہ عوام مہنگائی سے دل برداشتہ ہونے کے باوجودسڑکوں پر نہیں آرہے کہ مسلم لیگ ن والے اگر حکومت میں آگئے تو وہ بھی یہی راگ پڑھیں گے کہ عمران حکومت کی غلطیوں کیوجہ سے مہنگائی یہ کنٹرول نہیں کر سکتے تو پھر ہم کیوں انکے لئے ماریں کھائیں جیلوں میں جائیں عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اندر ہی اندر لاوہ پک رہا ہے جو پھٹ بھی سکتا ہے تحریک انصاف والے یہ نہ سمجھیں لوگ انکی محبت میں باہر نہیں نکل رہے لوگ اپوزیشن سے بھی مایوس ہیں اس بات کوبھی تسلیم کرنا چاہئے ،کہ نوجوان طبقہ وزیر اعظم عمران خان کی قرضہ سکیموں احساس پروگرام بھی استعفادہ کر رہے ہیں اور اب ہیلتھ کارڈ سکیم پنجاب میں شروع ہو رہی ہے جسکے لئے 4 سو ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں۔
ہیلتھ کارڈ جب گھر گھر پہنچے گا تو اسکے بھی مثبت نتائج برآمد ہونگے اگرچہ کے پی کے میں بھی ہیلتھ کارڈ تقسیم ہو چکے ہیں اور غریب لوگ بھر پور استعفادہ کر رہے ہیں تحریک انصاف کے بلدیاتی الیکشن ہارنے کیوجہ عوام نہیں بلکہ انکے اپنے گورنر ، وزیر اور ارکان پارلیمنٹ ہیں جنہوں نے اپنے عزیز و اقارب کو ٹکٹ دینے یا ٹکٹوں کیلئے پیسے وصول کئے ، جسکا فائدہ مولانا فضل الرحمان گروپ کو ہوا، وزیر اعظم نے کے پی کے میں پارٹی شکست کا نوٹس لیا انہیں کنٹونمنٹ بورڈ ز کے انتخابات میں شکست کے بعد ہی اپنی پارٹی کے عہدیداروں کی نااہلی اور ٹکٹوں کی غلط تقسیم کا نوٹس لینا چاہئے تھا، اصل میں وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی پارٹي کی تنظیموں پر توجہ ہی نہیں دی جسکی وجہ سے پارٹی کا یہ حال ہوا گلی محلے میں وارڈ کمیٹیاں ہوتیں تو لوگوں سے رابطہ رکھتیں۔
عام لوگوں کو قرضہ سکیموں کے تحت قرض لے کردیتی احساس پروگرام میں پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کو اہمیت دی جاتی تو صورتحال مختلف ہوتی کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل عامر کیانی کو انچارج بنایا جنکا پارٹی کارکنوں اور عام لوگوں سے رابطہ ہی نہیں تھا، پارٹی کارکنوں کو اہمیت نہ دینے اور جیالہ سسٹم کے خاتمے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کا یہ حال ہوا ، پارٹی کے جانثار گھروں میں بیٹھ گئے یا دوسری جماعتوں میں چلے گئے پارٹی میں پیسے والےاہمیت حاصل کرتے اور پنجاب میں پیپلزپارٹی اب جیالوں کو واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے مگر ابھی تک وہ بات نہیں بنی جس جس جماعت نے پیسوں والے فصلی بٹیروں کو اہمیت دی اپنے کارکنوں کو نظر انداز کیا اسکا یہ حال ہو ا،چاہئے وہ پیپلز پارٹی ہو مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف ہو، وزیر اعظم عمران خان کو یہ بات یاد کرانا ضروری ہو گا۔ کابینہ کے کتنے وزیر پارٹی سیکرٹریٹ میں جاکر عوام کے مسائل سنتے ہیں اور انہیں حل کرتے ہیں۔
مہنگائی کے علاوہ لوگوں کے بے شمار مسائل ہیں ، وزیر اعظم عمران خان کو پارٹی کارکنوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے ، اگر وہ آئندہ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن میں بہتر نتائج چاہتے ہیں تو اپنے کارکنوں کو متحرک یا مضبوط کرنا ہوگا ورنہ بلدیاتی الیکشن میں کے پی کے سے بھی پنجاب میں بری شکست کیلئے تیار رہنا چاہئے ،دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی کے صوبائی صدور اور سیکرٹری جنرل کی تبدیلی کے کیا اثرات مرتب ہوتےہیں با لخصوص پنجاب کے صدر شفقت محمود اور مرکزی سیکرٹری جنرل اسد عمر پارٹی کو کیسے متحرک کرتے ہیں۔