سندھ میں بلدیاتی ترمیمی بل پر پی پی پی اپوزیشن کے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہے۔ جماعت اسلامی نے ترمیمی بل کے خلاف سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دے رکھا ہے جماعت اسلامی کے احتجاج کے بعد پی ٹی آئی، جی ڈی اے، ایم کیو ایم، پاک سرزمین پارٹی بھی احتجاج میں شامل ہوگئی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کا عندیہ دیا گیا ہے تو پی پی پی نے سندھ میں گیس کی قلت کے خلا ف گورنرہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کی بات کی ہے سندھ میں اپوزیشن کا احتجاج بڑھتا جارہا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ احتجاج تشدد کے راستے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
صورتحال اب تلخ اور الزام تراشی کی جانب بڑھ گئی ہے پی پی پی کے صوبائی وزیر سعید غنی کا کہنا ہے کہ کوئی 2 ہزار دن بھی دھرنا دیں بل واپس نہیں لیں گے تاہم اس دوران پی پی پی نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور بھی کئے جو بارآور نہیں ہوپائے پی پی پی نے 30 جنوری کو ترمیمی بل کے خلاف وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کا اعلان کردیا ہے تو پی ٹی آئی سندھ کے صدرعلی زیدی نے 27 فروری کو سندھ حکومت کے خلاف گھوٹکی سے کراچی تک مارچ کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہاہے کہ کالے بلدیاتی ترمیمی بل کی واپسی تک یہ تحریک جاری رہے گی دوسری جانب جماعت اسلامی نے کراچی کی مرکزی شارع،شارع فیصل پر مارچ کیا اور دھرنا دیا۔ مارچ کا آغاز حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں عوامی مرکز سے ہوا،شرکاء نے نرسری اسٹاپ تک پیدل مارچ کیا ۔مارچ میں بچے، بوڑھے خواتین بھی بڑی تعداد موجود تھیں، مارچ میں ہندو، سکھ، مسیحی سمیت دیگر اقلیتوں سے وابستہ افراد نے بھی شرکت کی، مارچ کے قائدین نے ہاتھوں میں ایک بڑا بینر اٹھایا ہوا تھا جس پر ہمارا مطالبہ بااختیار شہری حکومت تحریر تھا۔
مارچ سے نائب امیرکراچی محمد اسحاق خان،پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی کراچی کے صدر سیف الدین ایڈوکیٹ، امیر ضلع جنوبی ورکن سندھ اسمبلی سید عبد الرشید نے بھی خطاب کیا۔ حافظ نعیم الرحمن نے نرسری اسٹاپ اور میٹروپول ہوٹل پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میٹروپول سے وزیر اعلیٰ ہاؤس قریب ہے ان شاء اللہ وہاں بھی دھرنا دیں گے۔
سندھ اسمبلی کی جگہ خالی نہیں کریں گے یہ ہمارا احتجاجی مرکز رہے گا،اہل کراچی کو حق نہ دیا گیا تو شہر کی تمام شاہراؤں اور سڑکوں پر دھرنے اور مارچ ہوں گے،کراچی کے اہم اور اسٹریٹجکٹ پوائنٹ پر خواتین دھرنا دیں گی اور مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنا حق مانگے گی، ایک ہفتے میں پورے شہر میں دوہزار کارنر میٹنگز کریں گے، حق دو کراچی کی صدا ہر گلی کوچے، محلے اور ہر گھر سے نکلے گی، جدوجہد آگے بڑھے گی،کراچی والے اپنا حق لے کر رہیں گے، کراچی کو وڈیروں اور جاگیرداروں اور قبضہ مافیاؤں سے آزاد کروائیں گے، شہری ادارے واپس لے کر رہیں گے۔
جماعت اسلامی کے دھرنے سے صرف سندھ حکومت نہیں سندھ کی فرینڈلی اپوزیشن بھی پریشان ہے،آدھی آبادی غائب کرنے والی مردم شماری کی بنیاد پر بھی کراچی کی یونین کونسلیں 600ہونی چاہیئے، لیکن اس کے باوجود کراچی کی یونین کونسلیں آدھی بھی نہیں بنائی گئیں۔ امیرجماعت اسلامی نے کہاکہ آج شاہراہ فیصل پر مارچ کے شرکاء شہر کے تین کروڑ شہریوں کاحق مانگ رہے ہیں، کراچی کروٹ لے رہا ہے اور بیدار ہورہا ہے، ہم تحریک کو مزید آگے بڑھائیں اور کالا قانون واپس لینے پر مجبور کردیں گے،حکمران بتائیں کہ جب کراچی پورے ملک کو 54فیصد ٹیکس، قومی خزانے میں تقریبا 70فیصد اور صوبے کو 95فیصد جمع کراتاہے تو اسے بنیادی حقوق سے کیوں محروم کیا ہوا ہے،35سال ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے مل کر کراچی کے شہریوں کا استحصال کیا۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی میں میگاسٹی گورنمنٹ قائم کی جائے، دیہی و شہری آبادی میں یکساں تناسب سے نئی حلقہ بندیاں کی جائیں، بین الاقوامی طرزکا ٹرانسپورٹ کا نظام دیا جائے،شہر میں میئر، ڈپٹی میئر،کونسل کے ممبران کا براہ راست انتخاب کیا جائے، کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا نگراں بااختیار میئر کو بنایا جائے، بااختیار شہری حکومت کے ماتحت صحت،تعلیم، اسپورٹس، سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ کا مربوط نظام بنایا جائے، کے ڈی اے،ایس بی سی اے، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ،سٹی پولیس وٹریفک پولیس سمیت بلدیاتی اداروں میگاسٹی گورنمنٹ کے تحت کیے جائیں،کوٹہ سسٹم ختم اورنئی مردم شماری ڈی فیکٹو کی بجائے ڈیجور طریقے سے کی جائے۔
اس سے قبل پی ٹی آئی، متحدہ قومی موومنٹ اور جی ڈی اے نے گورنرہاؤس کے قریب فوارہ چوک پر بلدیاتی ترمیمی بل کے خلاف دھرنا دیاگورنر ہاؤس کے قریب فوارہ چوک پر اپنی بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے بلدیاتی قانون کو مسترد کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے خلاف ان کی جدو جہد اور تیز ہوگی، اپوزیشن کا قافلہ اب رکنے والا نہیں اور اپوزیشن کے رہنما گرفتاریوں اور سیاسی انتقامی کارروائیوں سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔
احتجاجی مظاہرے سے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی۔پی ٹی آئی سندھ کے صدر وفاقی وزیر علی زیدی۔جی ڈی اے کے سردار عبدالرحیم۔ عامرخان۔ حلیم عادل شیخ۔خرم شیر زمان۔حسنین مرزا۔نصرت سحر عباسی اور دیگر نے خطاب میں کیا۔ احتجاج میں ایم کیوایم پاکستان۔ جی ڈی اے اور تحریک انصاف کے کارکنان کی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کارکنان نے اپنی جماعتوں کے پارٹی پرچم اٹھارکھے تھے۔شرکاء نے بلدیاتی نظام کے خلاف بینرز اٹھارکھے تھے۔ بلدیاتی نظام نامنظور۔نامنظور۔شرکاء نے پیپلز پارٹی کے خلاف نعرے بازی کی۔