اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے احتجاج بے نتیجہ رہا اور با لآ خر حکومت منی بجٹ اور اسٹیٹ بنک ترمیمی بل کو منظور کرانے میں کا میاب ہوئی ہے۔ صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد مالیاتی ترمیمی بل اب نافذ ہوچکا ہے۔ منی بجٹ کے نتیجے میں360ارب روپے کے اضافی ٹیکس عوام پر لاگو ہوچکے ہیں ۔ پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبی ہوئی قوم کومہنگائی کے ایک نئےطوفان کا سامنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزراء منی بجٹ کی منظوری پر خوشیاں منا رہے ہیں ۔ مبار کباد یں دے رہے ہیں۔
بظاہر تو منی بجٹ کے محاذ جنگ پر وزیر اعظم عمران خان اور ان کے اتحادی جیت گئے ہیں ۔ اپوزیشن جماعتیں منی بجٹ کی منظوری کو روکنے میں نا کام رہیں مگر در حقیقت شکست عوام کو ہوئی ہے جنہوں نے یہ بوجھ اٹھا نا ہے اور جن کی بات نہیں سنی گئی ۔اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ آئی ایم ایف نے پا کستان میں مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں اور حکومت اتنی بے بس ہے کہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر ایسی قانون سازی بھی کررہی ہے جس سے عوام کیلئے مشکلات پیداہوں گی ، کوئی سیا سی جماعت عوام کی ناراضگی مول نہیں لیتی کیونکہ اس نے دو بارہ الیکشن میں عوام کے پاس جا نا ہوتا ہے اور عوام کے پاس بدلہ لینے کا موقع ووٹ کی پرچی کی صورت میں پانچ سال کے بعد آ تا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان جب 17اگست 2018 کو وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انہیں صرف 176ووٹ ملے تھے ۔ ہائوس کی سادہ اکثریت کیلئے 172ووٹ در کار ہوتے ہیں ۔ ان کی اکثر یت ایم کیو ایم ‘ جی ڈی اے اور مسلم لیگ ق کی مر ہون منت ہے۔ کئی مواقع ایسے آئے جب یہ لگا کہ اتحا دی ساتھ چھوڑ جائیں گے اور عمران خان کی حکومت ختم ہو جا ئے گی لیکن آخر میں اتحادی مان جاتے ہیں اور ووٹ وزیر اعظم کی پالیسیوں کو دیتے ہیں ۔ عمران خان کیلئے منی بجٹ منظور کرانا بھی ایک مشکل ٹاسک تھا مگر وہ کا میاب رہے۔ ثابت ہوگیا کہ وہ ہر بحران سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا پھر ایسے دوست رکھتے ہیں جو مشکل میں ان کی مدد کرتے ہیں۔
عملی طور پر تو وہ مرد بحران ہی ثابت ہوئے ہیں ۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو تقریر یں کرتے رہ گئے اور بل پاس ہو گیا۔ ایک بات ضرور ہے کہ بلاول بھٹو اب بتد ریج ایک پختہ کار سیا ستدان کا اپنا امیج بنا ر ہے ہیں ۔ وہ پوری تیاری کرکے آتے ہیں۔ جملے کسنے کے بھی ماہر ہوگئے ہیں ۔ اردو زبان پر ان کی گر فت بہتر ہو رہی ہے۔
شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے در میان قربت بڑھ رہی ہے۔ دونوں میں اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو گیا ہے۔پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مل کر چل رہی ہیں ۔ پی ڈی ایم سے نکلنے کے بعد دونوں جماعتوں میں جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی وہ اب دور ہوچکی ہے۔
اب دونوں جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے آپشن پر صلاح مشورہ کر رہی ہیں ۔ جے یو آئی ف کو بھی اس کیلئے راضی کیا جا رہا ہے کیونکہ مو لانا فضل الر حمن چاہتے ہیں کہ احتجاجی سیا ست سےعمران خان کو اقتدار سے باہر کیا جا ئے جو عملا ً ناممکن نظر آ تا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف نئے الیکشن چاہتے ہیں ۔ اب نواز شریف بھی عدم اعتماد کے آپشن پر راضی ہوگئے ہیں کیونکہ اس سے ان کے پا کستان آنے کی راہ ہموار ہوجا ئے گی۔نواز شریف کے جنوری میں آنے والی باتیں دم توڑ چکی ہیں ۔نواز شریف بہت منجھے ہوئے سیا ستدان ہیں ۔
ان کا ملک واپس آنا عمران خان کی حکومت کے مستقبل اور اگلے الیکشن کی تاریخ کے ساتھ جڑا ہو ا ہے۔ وہ یا تو تب آئیں گے کہ عدم اعتماد کا میاب ہو جا ئے یا پھر الیکشن کے موقع پر آئیں گے اور گرفتاری دے کر پارٹی کیلئے سیا سی تقویت کا با عث بنیں گے ۔دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان پر اعتماد نظر آتے ہیں ۔ ہر بحران سے نکل کر ان کے اعتماد میں مزید اضافہ ہو جا تا ہے۔وہ سیا سی مزاج نہیں رکھتے اسلئے ابھی تک اپنے رویے میں یہ لچک پیدا نہیں کرسکے کہ بنیادی قومی ایشوز پر بالخصوص معیشت ‘ قومی سلامتی ‘ زراعت کیسے امور پر اپوزیشن کوساتھ لے کر چلیں اور قومی اتفاق رائے کا ماحول پیدا کریں۔
ساڑھے تین سال کے بعد بھی عمران خان اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ساتھ مصافحہ بھی کرنے کے روادار نہیں ہیں ۔پی ٹی آئی کے اندر اب یہ تشویش بہر حال پائی جا تی ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے پارٹی تیزی سے غیر مقبول ہو رہی ہے جس کا خمیازہ انہیں الیکشن میں بھگتنا پڑے گا۔ منی بجٹ سے پہلے وزیر اعظم کی زیر صدارت پار لیمانی پا رٹی کے اجلاس میں وزیر دفاع پر ویز خٹک کی وزیر اعظم سے تلخ کلامی دراصل انہیں عوام کا سامنا کرنے میں دپیش مشکلات کا نتیجہ ہے۔ ان کے ایک بھائی پیپلز پارٹی میں چلے گئے ہیں۔
دو بھانجے ن لیگ میں چلے گئے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی اب مخمصے کا شکار ہیں کہ اگلا الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑیں یا کوئی دوسرا آ پشن دیکھیں ۔پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نجی محفل میں کہتے ہیں کہ میں اگلا الیکشن پی ٹی آئی سے نہیں لڑوں گا۔ وہ قومی اسمبلی میں مہنگائی پر تنقید کرے ہیں ۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ پر احتجاج کرتے ہیں ۔ پرویز خٹک نے بھی گیس کامسلہ ہی اٹھایا تھا۔ نور عالم خان نے تو ایوان میں یہ کہ دیا کہ پہلی تین صف میں بیٹھے وزراء ہی اصل گنہگار ہیں ان کے نام ای سی ایل پر ڈالیں۔
پی ٹی آئی کے سابق سیکرٹری اطلا عات احمد جواد بھی کہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کو غیر منتخب مشیروں نے گھیرا ہوا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمران جماعت کے اندر سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ دراصل پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی کیلئے حلقوں میں جا نا مشکل ہوگیا ہے ۔ ووٹرز ان سے مہنگائی کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔بجلی ‘ گیس اور پیٹرول مسلسل مہنگا ہو رہا ہے۔ اشیائے خورد نوش مہنگی ہورہی ہیں ۔
اب 360ارب روپے کئے نئے ٹیکس سے عام آدمی کی قوت خرید جواب دے جا ئے گی۔بے شک عمران خان اپنی آنکھیں بند کرلیں لیکن مہنگائی کا سونامی انہیں بلدیاتی اور عام انتخابات میں لے ڈوبے گا۔ ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہیں منقسم اور نا لائق اپو زیشن کا سامنا ہے ۔ پیپلز پارٹی نے27فروری اور پی ڈی ایم نے23مارچ کو اسلام آ باد کیلئے مارچ کی کال دی ہے جو اپو زیشن ایک کال پر جمع نہ ہوسکے اس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے بہر حال مارچ کے موسم بہار سے سیا سی تبدیلی کی امیدیں وابستہ کی گئی ہیں کہ ان ہائوس تبدیلی کی راہ ہموار ہو جا ئے گی۔