پاکستان میں ہر سال 8 ہزار سے 10 ہزار بچے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً 70 فیصد بچے مختلف وجوہات کی بنا پر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انڈس چلڈرن کینسر اسپتال سے وابستہ ماہرین نے منگل کے روز بچوں کے کینسر کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر ڈاکٹروں، نرسوں، پیرامیڈیکل اسٹاف اور مریضوں کے اہلخانہ نے بچوں میں کینسر کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے ایک واک میں بھی شرکت کی۔
بچوں میں کینسر کا عالمی دن ہر سال 15 فروری کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد بچوں میں کینسر کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا، کینسر میں مبتلا بچوں کی جلد تشخیص اور انہیں علاج کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔
انڈس چلڈرن کینسر اسپتال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انڈس ہیلتھ نیٹ ورک کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً 8 سے 10 ہزار بچوں میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جبکہ ہزاروں بچے کینسر میں مبتلا ہونے کے باوجود تشخیص نہ ہونے کے سبب علاج سے محروم رہ جاتے ہیں اور جلد ہی انتقال کر جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈس چلڈرن کینسر اسپتال پاکستان کا سب سے بڑا اسپتال ہے جہاں پر بچوں کو کینسر کے علاج کی جدید ترین سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں اور اب ان کا ادارہ بچوں کے کینسر کے علاج کی سہولیات بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں مہیا کرنے جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈس چلڈرن کینسر اسپتال میں پاکستان کے تمام علاقوں سمیت افغانستان ایران اور دیگر ممالک سے بھی بچے علاج کے لیے لائے جاتے ہیں، بچوں میں کینسر اگر جلد تشخیص کر لیا جائے تو ایسے بچوں کے صحت یاب ہونے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔
بچوں کے کینسر کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بچوں کے کینسر اسپیشلسٹ ڈاکٹر محمد رفیع رضا کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک میں کینسر میں مبتلا بچوں کی صحت یابی کی شرح 80 فیصد سے زائد ہے جس کی سب سے بڑی وجہ وہاں پر علاج کی جدید ترین سہولیات کا ہونا، بچوں کے کینسر کے ماہرین کی موجودگی اور کینسر میں مبتلا بچوں اور ان کے والدین کے لیے سپورٹ سروسز کا ہونا شامل ہے۔
ڈاکٹر رفیع رضا کا مزید کہنا تھا کہ کم ترقی یافتہ ممالک بشمول پاکستان میں سہولیات کی عدم فراہمی اور دیر سے تشخیص کے سبب بچوں میں صحت یابی کی شرح محض 25 سے 30 فیصد ہے لیکن عالمی ادارہ صحت کے طے شدہ اہداف کے مطابق پاکستان میں کینسر میں مبتلا بچوں کی صحت یابی کی شرح 2030 تک 60 فیصد کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
انڈس چلڈرن کینسر اسپتال سے وابستہ معروف ماہر امراض اطفال اور کینسر اسپیشلسٹ سید احمر حامد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کینسر میں مبتلا 40 فیصد بچے اس وقت اسپتالوں میں لائے جاتے ہیں جب ان کا کینسر ناقابل علاج ہو چکا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کینسر ایک قابل علاج مرض ہے لیکن اس کے لیے عوام الناس میں شعور اور آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اگر بچوں کے جسم میں غیر معمولی تبدیلیاں جن میں وزن کا کم ہونا، جلد کی رنگت تبدیل ہونا، شدید درد، جسم کے کسی حصے میں ابھار، گلٹی یا رسولی سامنے آنے کی صورت میں بچوں کو فوری طور پر کسی بڑے اسپتال میں ماہر امراض اطفال سے معائنہ کروانا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بچوں میں کینسر کی وجوہات کے حوالے سے کوئی واضح بات نہیں کہی جا سکتی لیکن تقریباً پانچ سے دس فیصد بچوں میں کینسر موروثی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کینسر سے بچاؤ کے لیے بچوں کو صحت مند غذا، صحت مند طرز زندگی کی فراہمی اور کھیل کود سمیت ورزش کی سہولیات فراہم کرنا شامل ہیں۔
انڈس اسپتال سے وابستہ نرسنگ سپروائزر محمد یونس بھٹی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اتائیوں کی بھرمار ہے جو والدین کو گمراہ کرتے ہیں اور علاج کروانے والے بچوں کو اسپتالوں میں جانے سے روکنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے کینسر میں مبتلا بچوں میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔
اس موقع پر معروف کینسر اسپیشلسٹ پروفیسر ڈاکٹر شیمول اشرف، آغا خان اسپتال کے ماہر ڈاکٹر عاصم بیلگامی، ڈاکٹر واصفہ فاروق اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔