کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے نمبرز پورے ہیں بلکہ مطلوبہ تعداد سے زیادہ ہیں،تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ق لیگ میں حکومت کا ساتھ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے، ق لیگ واضح کہہ رہی ہے کہ اپنی کمٹمنٹ پر قائم ہے،پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت بھی ہمارا مطالبہ تھا کہ حکومت کو فارغ کر کے انتخابی اصلاحات کریں گے،سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ اپوزیشن قیادت تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے پراعتماد ہیں، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ عدم اعتمادکی تحریک پردستخط ہوگئے ہیں،وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے نمبرز پورے ہیں بلکہ مطلوبہ تعداد سے زیادہ ہیں، ق لیگ اس حکومت کے بوجھ کے ساتھ اگلے الیکشن میں جاناچاہتی ہے تو یہ اس کا فیصلہ ہے ہم سات نشستوں والی جماعت کو صوبہ نہیں دے سکتے، عدم اعتماد کے بعد حکومت بنانے کے حق میں نہیں ہیں یہ ملک اور سیاست کا نقصان ہوگا، انتخابی اصلاحات کی ضرورت نظر نہیں آتی ہے، عدم اعتماد کے بعد عوام کے پاس جانا ہوگا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدم اعتمادکی تحریک پردستخط ہوگئے ہیں،حتمی فیصلہ ہونے کے بعد تحریک عدم اعتماد پیش کردیں گے، عدم اعتماد کے بعد کیا کرنا ہے اس پر مشاورت جاری ہے، میری ذاتی رائے میں نئی حکومت بنانے کا نہ کوئی مقصد ہے نہ کوئی منطق ہے، عوام کے پاس نئے مینڈیٹ کیلئے جانا ہوگا وہاں سے ہی ملکی مسائل کے حل کی ابتدا ء ہوگی۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات کی ضرورت نظر نہیں آتی ہے، الیکشن چوری ہوا ہے ویسے ملک کے الیکشن نظام میں کوئی خرابی نہیں ہے، عدم اعتماد کے بعد عوام کے پاس جانا ہوگا، نئی حکومت بنانے کا مطلب وقت ضائع کرنا ہوگا، ہمارے نمبرز الحمداللہ پورے ہیں بلکہ مطلوبہ تعداد سے زیادہ نمبرز ہیں،حکومتی ارکان کو ن لیگ کے ٹکٹ کی یقین دہانی نہیں کروائی گئی البتہ جہاں کوئی ایڈجسٹمنٹ ہوسکتی ہے انہیں بتادیا جاتا ہے، حکومتی ارکان اپوزیشن کے ساتھ اپنی سیاست کے لئے آرہے ہیں، وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ق لیگ اس حکومت کے بوجھ کے ساتھ اگلے الیکشن میں جاناچاہتی ہے تو یہ اس کا فیصلہ ہے، ہم سات نشستوں والی جماعت کو صوبہ نہیں دے سکتے، لینے دینے والی سیاست ماضی میں ناکام رہی ہے، سیٹ ایڈجسٹمنٹ الیکشن میں ہوتی ہے،ق لیگ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہے تو بات ہوسکتی ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سمیت تمام صوبائی حکومتیں رہنے دیں، عدم اعتماد وفاق میں ہورہا ہے وہاں پر ہی نیا الیکشن ہوگا، صوبے میں الیکشن نہ کروائیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ ہوچکا ہے پیش کرنے کے وقت کا تعین مشاورت سے ہوگا، اسپیکر قومی اسمبلی پر عدم اعتماد کرتے ہیں تو سات دن کا پراسس ہے، وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کیلئے چھ سے دس دن کا پراسس ہے، میاں صاحب اور جہانگیر ترین لندن میں ہیں ملاقات ہوجائے تو اچھا ہے، عوام کادباؤ بیساکھیوں پر بھی ہے میرا نہیں خیال اب بیساکھیاں رہیں گی، عدم اعتماد کے بعد عوام کو رائے کے اظہار کا موقع دیا جائے، عدم اعتماد کے بعد حکومت بنانے کے حق میں نہیں ہوں یہ ملک اور سیاست کا نقصان ہوگا، اگلے چند دنوں میں اجلاس طلب کرنے کیلئے تحریک جمع ہوجائے گی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پی ڈی ایم کی تشکیل کے وقت بھی ہمارا مطالبہ تھا کہ حکومت کو فارغ کر کے انتخابی اصلاحات کریں گے، جن الیکشن قوانین کے تحت الیکشن ہوئے ہمیں اس پر اعتراض تھا، موجودہ حکومت نے الیکشن قوانین میں جو ترامیم کیں وہ قابل قبول نہیں ہیں، ان ترامیم کے ہوتے ہوئے جو الیکشن ہوئے وہ متنازع ہوں گے، پی ڈی ایم کے اعلامیہ میں لکھا تھا کہ نئی حکومت انتخابی اصلاحات کرنے کے بعد فوری الیکشن کی طرف جائے گی۔ قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے 48گھنٹے میں سرپرائز کی بات ذمہ داری سے کی ہوگی، تحریک عدم اعتماد اگلے چند دنوں کا ہی معاملہ ہے، اگر ن لیگ سمجھتی ہے ق لیگ کا مطالبہ پورا کیے بغیر اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کرسکتی ہے تو وہ بھی ٹھیک ہے، اسٹیبلشمنٹ کی غیرجانبداری جب تک ثابت نہیں ہوجاتی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، یہ بات درست ہے کہ مداخلت کا ثبوت نہیں تو الزام نہیں لگنا چاہئے۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ق لیگ میں حکومت کا ساتھ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے، ق لیگ واضح کہہ رہی ہے کہ اپنی کمٹمنٹ پر قائم ہے، چودھری برادران اصول والے خاندانی لوگ ہیں زبان پر قائم رہیں گے، مختلف ایشوز پر مشاورت کیلئے پارٹیوں کے درمیان کوآرڈینیشن اچھی بات ہے، ق لیگ کوآرڈی نیشن میں کمی محسوس کررہی تھی تو اسد عمر کو کوآرڈی نیٹر بنانے سے کمی دور ہوجائے گی۔ شاہ محمود قریشی کاکہنا تھا کہ ہانڈی میں سے جو نکلنا تھا وہ نکل چکا ہے، بلاول کا سرکاری وسائل سے کیا گیا عوامی مارچ ناکام ہوچکا ہے۔