• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا کوئی رکن جاتا ہے تو وہ اپنی رکنیت سے بھی جائیگا، اسد عمر

کراچی (ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و خصوصی اقدامات اسد عمرنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ہمارا کوئی رکن جاتا ہے تو وہ اپنی رکنیت سے بھی جائیگا،حرام کے پیسے سے عوام کے مینڈیٹ کو خریدنے کی کوشش ہورہی ہے، مستقل طور پر ملاقاتیں بھی ہورہی ہیں اپویشن کے پاس تحریک عدم اعتمادکے لئے نمبرز پورے نہیں ہیں۔

اپوزیشن خود اعتراف کرچکی ہے ہمارے پاس نمبرز پورے نہیں۔بلاول نے لاہور میں کھڑے ہوکر کہاکہ بڑا مشکل کام ہے لیکن پھر بھی ہم کوشش کریں گے۔اگر ہم ہار بھی گئے تو ہم خاموش ہوکر نہیں بیٹھیں گے۔

پی ٹی آئی کے تمام ممبران سے ہماری ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ارکان کی کوئی فہرست نہیں ایسی فہرستیں واٹس ایپ پر بہت دیکھ لیں۔ارکان نے بتایا کہ انہیں کس قسم کی پیشکش ہورہی ہے۔حرام کے پیسے سے عوام کے مینڈیٹ کو خریدنے کی کوشش ہورہی ہے۔یہ سب آئین اور جمہویت کے نام پر ہورہا ہے دن دھڑلے ہورہا ہے سب کے سامنے ہورہا ہے۔

سینیٹ الیکشن میں بھی سب نے دیکھا کہ کیسے ارکان کو خریدا گیا۔الیکشن کمیشن پہلے نوٹس لے لیتا توشاید آج قد غن لگی ہوتی۔ان تمام حربوں کے باوجو دیہ ناکام ہی ہوں گے۔اتحادی واضح کہہ چکے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں تھے اور رہیں گے۔ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ باقاعدہ معاہدے پر دستخط کئے گئے تھے معاہدے کے بہت سے نکات پر پیش رفت ہوئی ہے۔

ایم کیو ایم یا کسی بھی اتحادی نے کبھی بھی کسی موقع کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ کبھی بھی ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا کہ ہم اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہوں اور کسی اتحادی نے ہم سے کوئی ڈیمانڈ کی ہواور مشروط حمایت کی ہو۔

تحریک عدم اعتماد سے متعلق ہم نے حکمت عملی بنا لی ہے تحریک عدم اعتماد والے دن ہمارا کوئی رکن اسمبلی نہیں جائے گا۔اپوزیشن عدم اعتماد لائی ارکان پورے کرنا اپوزیشن کی ذمہ داری ہے۔کوئی رکن جاتا ہے تو اس کے خلاف آرٹیکل63A کے خلاف کارروائی کریں گے۔آرٹیکل63A کے خلاف منحرف رکن اپنی رکنیت سے بھی جاسکتا ہے۔

غیر آئینی کام کوئی رکن کرتا ہے تو اس کا ووٹ شمار ہی نہیں ہونا چاہئے۔ جن ارکان کو پیشکش ہوئی انہوں نے آکر بتایا کہ کتنی رقم کی آفر کی گئی اور کس نے کی۔

میزبان نے وفاقی وزیر اسد عمر سے سوال کیا کہ کیا کل آپ راولپنڈی گئے تھے تو انہوں نے جواباً کہا کہ پاکستان کا شہر ہے اسلام آباد کا جڑواں شہر ہے ہم اکثرپنڈی جاتے رہتے ہیں اور ہوسکتا ہے کل بھی ہم راولپنڈی بھی گئے ہوں اور وہاں بہترین موسم تھا۔

اگر ان کا ماضی دیکھیں گے تویہ اداروں کی جو اصلاح کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں وہ میاں نواز شریف نے شروع کی،یہ چاہتے ہیں کہ ملک کے اندر کوئی ادارہ نہ بچے فوج ان کے قابو نہیں آتی تو ان کو وہ کھٹکتی ہے بار بار اس کی طرف دیکھتے ہیں۔ اصلاحات کرنے جارہے ہیں یعنی اصلاحات کرنے کا مطلب ہے ادھر بھی ملیا میٹ کرنے کے لئے جارہے ہیں وہاں پر بھی سیاست پھیلانے جارہے ہیں۔

آپ کو میمو گیٹ یاد ہے اس وقت کیا ہوا سری لنکا میں بیٹھ کرپاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کی فوج کے بارے میں انڈیاکے وزیراعظم سے کیا کہا۔ وہ تو بند کمروں کی میٹنگ تھیں اب تو آپ نے جلسوں کے اندر اٹیک ہوتے سنے ہیں ۔کس خوشی اور فخر سے بھارت کا میڈیا اس کو پک کرتا ہے ساری دنیا کے اندر خبریں چلائی جاتی ہیں۔ہم تو چاہتے ہیں کہ ادارے بالکل اپنی آئینی حدود کے اندر کام کریں اور وہ پاکستان کی فوج کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے پاکستان ایک مشکل خطے کے اندر آتا ہے ۔

 عمران خان نے تو کبھی بیٹھ کر یہ سازشیں نہیں کیں عمران خان نے تو کبھی جرنیلوں کو خریدنے کی کوشش نہیں کی۔عمران خا ن نے تو کبھی سپریم کورٹ پر حملے نہیں کروائے لیکن یہ جو کررہے ہیں اور نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں انشاء اللہ یہ نقصان کبھی نہیں ہوگا۔پی ٹی آئی کی پالیسی بالکل واضح ہے ہم دنیا کے ہر ملک سے اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور عزت ووقار کے ساتھ ہر ایک کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن امریکا کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ان سے آشیر باد مانگ رہے ہیں کہ آپ پاکستان میں آکر مداخلت کریں امریکا کوئی ایسی حرکت نہیں کرے گا مگر ان کی طرف سے خواہش وہ بالکل واضح ہے۔افسوس ہوتا ہے کہ ایسے ایسے لوگ اپنی حکومت کے دعویدار ہیں اور بہت بڑے لیڈر بنے ہوئے ہیں جو پاکستانی سن بھی رہا ہوگا اس کوسن کر بھی شرم آگئی ہوگی۔

اہم خبریں سے مزید