ماضی کی مقبول فلم ’’سارجنٹ‘‘ کی اسٹوری پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ایک فرض شناس سپاہی، بہادر اور ایمان دار افسر فرید کی کہانی ہے ، جس نے جرائم پیشہ اور اسمگلر کے خلاف اپنی جان کی بازی لگا دی تھی۔ یہ کہانی ہے، ایک ایسے نوجوان کی جسے معاشرے نے سیدھے راستے سے ہٹا کر ایک مُجرم بنا دیا تھا۔ دلاور جو مظلوم تھا، مگر جب ظلم حد سے بڑھا تو اس نے ظالم کا خاتمہ کردیا۔ یہ کہانی ہے، ایک ایسی عورت کی ہے، جس کا شوہر ایک حادثے کا شکار کیا ہوا، لوگوں نے اس کی شرافت لُوٹ لی۔
اس کہانی کا ایک کردار شمو بدمعاش بھی ہے، جو بدی کی علامت تھا، لیکن فلم میں اس کی ملاقات شیر افگن نامی خطرناک ڈاکو سے ہوگئی، جس کی دہشت سے لوگ پناہ مانگتے تھے۔ اس کہانی میں کلب میں ناچنے والی ایک لڑکی بھی آپ کو ملے گی، جس کی آنکھوں کا رنگ کبھی پیلا نظر آتا، تو کبھی کالا، مگر ان رنگوں میں کوئی اس کی مجبوری نہ دیکھ سکا۔ سماج کے چند مجبور اور فِرعون چہرے آپ کو اس کہانی میں نظر آئیں گے۔
پشتو فلموں کے مقبول اور سپر اسٹار آصف خان کی بہ طور ہیرو یہ پہلی اردو فلم تھی، جس میں ان کے مقابل اداکارہ نجمہ نے ہیروئن کا رول کیا تھا۔ آصف خان اس فلم میں فرید سارجنٹ کے کردار میں بے حد جچے تھے اور بڑی عمدہ اداکاری کرتے ہوئے نظر آئے، جب کہ نجمہ نے کلب ڈانسر کے کردار میں اپنے خُوب صورت ڈانسز اور بے ساختہ کردار نگاری سے فلم بینوں کو بے حد محظوظ کیا۔ ’’ نازی‘‘ کا یہ کردار ان کے کیریئر کا یادگار کردار تھا۔ آصف خان کے ساتھ ان کی جوڑی بھی بے حد پسند کی گئی اور فلم بھی کام یاب رہی۔
پاکستانی فلموں کے نامور وِلن اداکار مصطفیٰ قریشی نے ’’دلاور‘‘ نامی ایک ایسے شخص کا کردار کیا تھا، جو بے گناہ تھا، مگر اسے سماج نے مجرم بنا دیا۔ اس کردار میں وہ اس قدر پسند کیے گئے کہ فلم کے جس فریم میں وہ نظر آئے، فلم بینوں نے تالیوں کی گونج میں ان کا استقبال کیا، خاص طور پر ان کے ادا کیے گئے مکالموں اور انداز کو عوام نے بے حد سراہا۔ پشتو فلموں کی پہلی سپر اسٹار یاسمین خان نے اس فلم میں ایک بیوہ کے کردار کو خُوب صورتی سے نبھایا، جو اپنے بچے کی پرورش کے لیے اپنی عزت کا سودا کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
’’شبنم‘‘ نامی اس کردار میں یاسمین خان نے کمالِ فن سے کردار نگاری کی۔ اداکار افضال احمد نے اس فلم میں شمبو دادا کا یادگار کردار نہایت خُوبی سے ادا کیا۔ آصف خان، مصطفیٰ قریشی کے بعد افضال کا کردار فلم بینوں میں بہت مقبول ہوا۔ شمبو، جو کراچی لیاری کا ایک بدمعاش دکھایا گیا، جس میں افضال احمد کا گیٹ اپ اور مکرانی لب و لہجہ اس قدر نیچرل تھا کہ پُوری فلم میں وہ اسکرین پر چھائے رہے۔ خاص طور پر ان کا ایک مکالمہ ’’ٹائم ٹائم کا گیم ہے جوان!‘‘ عوام میں بے حد مقبول ہوا۔ اداکارہ صاعقہ نے ایک ہمدرد نرس عابدہ کے کردار کو خوب نبھایا۔
آصف خان کی بہن اور اداکارہ سیما کی بیٹی کا کردار صاعقہ نے خوبی سے ادا کیا۔ سینئر اداکارہ بہار بیگم نے سعد نوازش کی والدہ کے جذباتی کردار کو بڑی سنجیدگی سے ادا کیا۔ اپنے بے گناہ بیٹے دلاور کے لیے قانون سے ٹکرانے والی ایک نڈر ماں کے کردار میں پسند کی گئیں۔ اداکار ادیب نے ڈاکو شیر افگن کے کردار میں پوری فلم میں اپنی دہشت کی اداکاری سے فلم بینوں کو محظوظ کیا۔ فلم کے دیگر اداکاروں میں ساقی، اورنگزیب، ننھا، راحت (نیا چہرہ)، پروین بوبی، افشاں، کمال ایرانی، ملک انوکھا، البیلا، عابد بٹ، اختر شاد، قیصر مستانہ، علاو الدین جونیئر کے نام شامل تھے۔
ہدایت کار اسلم ایرانی، ان کا شمار پاکستان کے بانی فلم میکروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بہ طور ہدایت کار پہلی فلم ’’تڑپ‘‘ بنائی تھی، جو 1953ء میں ریلیز ہوئی۔ اردو فلموں سے کیریئر کا آغاز کرنے والے اس ہدایت کار کے کریڈٹ پر زیادہ کام یاب اور یادگار پنجابی فلمیں، جن میں ’’بچہ جمہورا‘‘ ’’بہروپیا‘‘ ’’مفت بر‘‘ ’’موج میلہ‘‘ ’’چاچا خامخواہ‘‘ ’’ڈاچی‘‘ ’’ہتھ جوڑی‘‘ ’’بھریا میلہ‘‘ ’’بابل دا ویہڑہ‘‘ ’’اشتہاری ملزم‘‘ اور ’’لائسنس‘‘ شامل ہیں۔
1976ء میں سپرہٹ پنجابی فلم ’’لائسنس‘‘ بنانے والے فلم ساز میاں جاوید بابر نے ان سے ایک اردو فلم ’’سارجنٹ‘‘ بنوائی جو بے حد کام یاب رہی۔ اس اردو فلم میں انہوں نے اپنی ڈائریکشن سے یہ ثابت کیا کہ وہ ہر زبان کی فلم بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ہدایت کار اسلم ایرانی نے ایک بہترین ٹیم کے ساتھ ایک بہت ہی کام یاب اور عمدہ فلم بنائی۔ یہ فلم بروز جمعرات 4؍اگست 1977ء کو کراچی کے اے ون کلاس سنیما ’’ریکس‘‘ میں ریلیز ہوئی، جہاں بڑی کام یابی سے تین ہفتے چلنے کے بعد اس کا مرکزی سنیما صدر میں واقع اوڈین سنیما بن گیا ، جو پہلے اس فلم کا سائیڈ سنیما تھا۔ کراچی کے 19؍سنیما ہائوسز میں بہ یک وقت ریلیز ہونے والی اس ایڈونچر،، ایکشن اور معاشرتی فلم نے اپنے مین سنیما پر 19؍ہفتے چلتے ہوئے مجموعی طور پر 53؍ہفتوں کا بزنس کرکے شان دار گولڈن جوبلی منائی۔
فلم کام یاب فلم کے موسیقار کمال احمد تھے۔ اس سے قبل انہوں نے کئی اردو اور پنجابی فلموں میں سپرہٹ میوزک دیا تھا۔ اس فلم میں کُل 5؍گانے شامل تھے، جب کہ شاعر تسلیم فاضلی تھے۔ ’’جا رے سارجنٹ ہو جا رے سارجنٹ (سنگر نورجہاں) (فلم بندی نجمہ)۔ رات کا ہوگیا سناٹا دل میں چبھنے لگا کانٹا (سنگر نورجہاں) (فلم بندی نجمہ کلب سونگ)۔ذرا دیکھ ادھر میری آنکھوں کا (سنگر نورجہاں) (فلم بندی نجمہ کلب سونگ)۔ جو نوکری جو پیاری تو پھر یاری (سنگر نورجہاں (فلم بندی نجمہ)۔ شرابی شراب کیوں پیتا ہے (سنگر مہدی حسن) (فلم بندی مصطفیٰ قریشی)۔
دیگر شعبہ جات میں فوٹو گرافی کا شعبہ قابل دید تھا۔ سجاد رضوی بہطور فوٹوگرافر پہلی بار متعارف ہوئے۔ فلم کے ایکشن شارٹ، موٹرسائیکل جمپنگ شارٹ، کلب کے گانوں میں ان کی عکس بندی عمدہ اور معیاری تھی۔ انہوں نے ڈے اور نائٹ مناظر میں لائٹنگ کا بہت اعلیٰ استعمال کیا۔ فلم ٹیمپو کو فاسٹ رکھنے میں تدوین کار ایم جاوید نے اپنا حق ادا کردیا۔ فلم بینوں کو کہیں بھی بوریت کا احساس نہیں ہونے دیا۔ فلم کے مصنف محمد کمال پاشا نے ایک عام ایکشن کہانی میں عمدہ منظرنامہ اور مکالمے تحریر کرکے اس فلم کے اسکرپٹ کو خاصا جان دار اور قابل دید بنا دیا، خصوصاً فلم کے بعض مکالموں سے فلم بین بے حد محظوظ ہوئے۔
فلم کے بعض مکالمے لوگوں کو ازبر ہوگئے تھے، جیسے افضال احمد کا مکالمہ ’’فکر نہیں کرو سارجنٹ! ہم تیرے کو محمد علی کلے کا جھٹکا دے گا‘‘ فلم کے ایک اور منظر میں افضال احمد، مصطفیٰ قریشی کو کہتا ہے ’’اڑے جاتا ہے، ٹائم ٹائم کا گیم ہے جواں!‘‘ اداکار مصطفیٰ قریشی کے بعض مکالمے لوگوں کو اتنے پسند آئے کہ انہوں نے بھرپور تالیوں سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ فلم کے ایک منظر میں وہ اداکار افضال احمد سے کہتا ہے۔ ’’یاد رکھیو دلاورے! میں آنکھیں نکال دیا کرتا ہے اور بے غیرت کا ہاتھ کاٹ دیا کرتا ہے۔‘‘ فلم کے کئی مناظر ایسے تھے، جب آصف خان اور مصطفیٰ قریشی کے درمیان ہونے والے مکالموں سے فلم بین خُوب محظوظ ہوتے تھے۔