تحریک انصاف کے جلسوں کا سلسلہ جاری ہے اور کل تحریک انصاف جنوبی پنجاب میں ایک بڑا پاورشو کرنے جارہی ہے ، جس کے لئے گزشتہ دو ہفتوں سے تیاریاں جاری ہیں اور جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع سے ارکان اسمبلی اور عہدےداروں کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں کارکنوں کو جلسہ گاہ تک لائیں ،ملتان میں بھی کارنر میٹنگز اور عوامی رابطہ مہم جاری ہے ،خاص طورپر تحریک انصاف خواتین ونگ کی عہدے دارگھرگھر جا کر خواتین کو جلسہ میں آنے کے لئے متحرک کررہی ہیں ،بلاشبہ یہ بھی ایک کامیاب جلسہ ہوگا ،کیونکہ اب تک جلسوں کا جو تسلسل چلاآرہا ہے ، اس میں عوامی دلچسپی برقرار ہے اور عمران خان کا بیانیہ ابھی تک لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے۔
سیالکوٹ جلسہ میں جو بدمزگی ہوئی ، اس سے یہ اندازہ بھی ہوگیا ہے کہ اگرتحریک انصاف کے جلسوں کو بزور طاقت روکنے کی کوشش کی گئی ،تو اس کا سخت ردعمل سامنے آئے گا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ سیالکوٹ میں تحریک انصاف نے اپنی غلط حکمت عملی کے ذریعے صورتحال کو خراب کیا ، ایک اقلیتی طبقہ کی ملکیتی زمین پر جلسہ کا اعلان کرکے جس کی باقاعدہ انتظامیہ سے اجازت بھی نہیں لی گئی ،ایک ایسا مسئلہ کھڑا کیا گیا ،جو خود تحریک انصاف کے لئے نامناسب تھا ،تاہم اس سے یہ اندازہ ہوگیا کہ تحریک انصاف میں اب مزاحمت کا جذبہ بھی پیدا ہوگیا ہے اور اسے آسانی کے ساتھ دیوار سے نہیں لگایا جاسکتا۔
ملتان میں جلسہ کے لئے تاریخی قلعہ کہنہ قاسم باغ کا انتخاب کیا گیا ہے ، جہاں ماضی میں بڑے بڑے جلسے ہوتے رہے ہیں ،ایوب خان ،فاطمہ جناح ،ذوالفقار علی بھٹو ،بے نظیر بھٹو، نوازشریف اورمولانا فضل الرحمن یہاں جلسے کرچکے ہیں ،خود عمران خان بھی اپنی الیکشن مہم کے دوران یہاں ایک بڑا جلسہ کرچکے ہیں ، جس کی ایک تلخ یاد بھی موجود ہے کہ جلسہ کے اختتام پر ہڑبونگ کی وجہ سے نکلتے ہوئے کئی کارکن زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اس گراؤنڈ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو اسے بھرنے میں کامیاب رہے ، وہ اپنی مقبولیت کو ثابت کردیتا ہے ،عمران خان کا پہلے والا جلسہ بھی بہت کامیاب رہا تھا اور اس بار بھی لگتا ہے کہ یہ جلسہ گاہ شرکاء سے کھچا کھچ بھر جائے گی۔
اس جلسہ کی اہمیت اس لئے بھی ہےکہ عمران خان نے 20 مئی کے بعد اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال دینے کا اعلان کررکھا ہے ، کیا وہ اس جلسہ کو اس اعلان کے لئے استعمال کریں گے ؟ اگر ایسا ہوا تو ایک لحاظ سے تحریک انصاف کا یہ لانگ مارچ ملتان سے شروع ہوگا ، عمران خان کا بیانیہ ہر نئے دن کے ساتھ ہرنئے جلسہ میں تیز تر ہوتا جارہا ہے ،انہوں نے بیرونی سازش کا بیانیہ اختیار کرکے جہاں اپنا ایک مخصوص لب ولہجہ اپنایا ،وہیں اب انہوں نے اپنے قتل کی سازش کا انکشاف کرتے ہوئے ایک نئی سنسنی دوڑادی ہے ، عمران خان کے اس دعوے میں کوئی صداقت ہے ؟ اور انہوں نے اس حوالے سے ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کرنے کی جو بات کی ہے ،کیا اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیئے؟
بہتر تو یہی ہوگا کہ عمران خان ان کرداروں کے نام سامنے لائیں ، جن پر انہیں شک ہے ، یا حکومت ایسا کمیشن قائم کرے ،جو ان کے دعوے کی تحقیق کرے ،پھریہ بھی ہے کہ ان کی سیکوریٹی بڑھانے کا بھی حکومت کو سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے ،کیونکہ ملک اس وقت کسی ایسے سانحہ کا متحمل نہیں ہوسکتا ،جو ایک بڑے انتشار کا باعث بن جائے ،تحریک انصاف یوں لگتا ہے کہ نئے انتخابات کے لئے ہرحد تک جانا چاہتی ہے اور اس سے کم وہ کسی مطالبہ پر آمادہ نہیں ہے ،دوسری طرف حکومت ہے کہ جو ابھی تک عوام کو ریلیف نہیں د ے پارہی ،مہنگائی اور بڑھتی ہوئی غربت اور بے روزگاری ایک بڑ ا چیلنج بن چکی ہے ،جس سے نبردآزما ہونے کے لئے موجودہ مخلوط حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں ہے ، مگر پیپلزپارٹی ابھی فوری انتخابات کے حق میں نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ و جنوبی پنجاب میں کچھ وقت گزارنا چاہتی ہے ،تاکہ اس خطے میں عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں ،بلاول بھٹو زرداری وطن کراچی پہنچے ،تو ان کا بھرپور استقبال ہوا ہے ،اب پیپلزپارٹی کے حلقے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ دورہ امریکہ کے بعد وہ جنوبی پنجاب بھی آئیں گے ۔ پنجاب کی کابینہ میں ابھی تک وزارتوں کا معاملہ اٹکا ہوا ہے ، پہلے پیپلزپارٹی کو توقع تھی کہ گورنر ان کی جماعت سے لیا جائے گا ،مگر اب بلیغ الرحمن کو گورنر نامزد کرکے مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی کے لئے سوائے چند صوبائی وزارتون اور معاونین خصوصی کے اور کچھ نہیں چھوڑا ،یہ مرحلہ بھی گورنر پنجاب کے حلف نہ اٹھانے کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔
ادھر مسلم لیگ ن کے حلقے بھی گومگوں کی کیفیت میں مبتلا ہیں ،پنجاب میں حکومت تو بن گئی ہے ،مگر اس کے اثرات ابھی تک نظر نہیں آرہے ،ابھی تک مختلف محکموں میں چئیرمین اور دیگر سیاسی عہدوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ہی لگے ہوئے ہیں اور انہیں ہٹایا نہیں جاسکا ، حالانکہ مسلم لیگ ن کے حلقوں کی جانب سے اس بارے میں اعلیٰ قیادت کو پیغامات بھجوائے گئے ہیں، لگتا یہی ہے کہ ابھی مسلم لیگ پنجاب میں حکومت بنانے کے بعد سنبھل نہیں پارہی ،کیونکہ کا بینہ نہ ہونے کی وجہ سے حمزہ شہباز ایک ایسے وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کررہے ہیں ،جو ون مین آرمی ہیں ، وہ کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرسکے ،کیونکہ اس کے لئے کابینہ کی منظوری درکار ہے ،وہ زیادہ تر کام چیف سیکرٹری سے لے رہے ہیں اور ان کی توجہ کا مرکز صرف لاہور ہے ،ملتان اور جنوبی پنجاب میں مسائل ہمیشہ کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں۔
مسلم لیگی حلقے پرامید ہیں کہ حمزہ شہباز اسی ماہ ملتان کا دورہ کریں گے اور یہاں کے لئے بڑے پیکج کا اعلان بھی کریں گے ،مگر سوال یہ ہے کہ ان کے پاس اتنی مدت ہی موجود نہیں ہے کہ وہ کسی میگا پراجیکٹ کا اعلان کرسکیں ،تاہم اس کے باوجود ان کادورہ مسلم لیگی حلقوں میں ایک نئی زندگی دوڑا سکتا ہے ،کیونکہ پچھلے چار سالوں سے وہ مایوسی اور قیادت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ ادھر سینئر سیاست دان مخدوم جاوید ہاشمی دل کے کا میاب بائی پاس کے بعد روبصحت ہیں اور گھر منتقل ہوچکے ہیں ، مخدوم جاوید ہاشمی مکمل صحت یاب ہونے کے بعد عملی سیاست میں ایک نئے عزم کے ساتھ اپنا کردار اد ا کریں گے۔