• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کیا قبل ازوقت انتخابات ’’سیاسی بھنور‘‘ سے نکال سکتے ہیں؟

وطن عزیز افواہوں اور قیاس آرائیوں کی زد میں ہے ہر سیاسی مبصر، اینکر، صحافی اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں کے حوالے سے تبصرے اور دعوے کررہا ہے کوئی کہتا ہے حکومت چند دنوں کی مہمان ہے کوئی کہتا ہے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ اپنی آئینی مدت پوری کرے گی وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی یہ واضح اعلان کیا موجودہ حکومت 2023 تک برقرار رہے گی اور آئندہ انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے مگر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے قوم سے خطاب کے دوران مریم اورنگزیب کے دعوے کی تائید نہیں کی اگر صورتحال کا ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو موجودہ حکومت کوئی مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں ہے صرف دو ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے کسی نے دو ووٹوں کی سیڑھی کھینچ دی تو حکومت دھڑام سے گر جائے گی۔

ادھر عمران خان نے اپنی احتجاجی تحریک کے قبل از وقت اختتام پر اسمبلیاں توڑنے اور نئے انتخابات کے لیے چھ دن کا وقت دیا سابق وزیراعظم عمران خان نے 20 لاکھ لوگوں کے ہمراہ دھرنے دینے کا اعلان کیا تھا مگر وہ اپنے ہمراہ چند ہزار لوگ ہی اسلام آباد لے کر آسکے انہوں نے الیکشن کی تاریخ لینے تک دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا مگر اچانک وہ حکومت اور مقتدر طاقتوں کو 6 دن کا وقت دے کر واپس چلے گئے اور کہا کہ اگر حکومت نے اسمبلیاں نہ توڑیں اور الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کیا تو وہ بھرپور تیاری کے ساتھ 30 لاکھ لوگوں کو لے کر آئیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قبل از وقت انتخابات ملک کو سیاسی بھنور سے نکلا سکیں گے۔ 

ویسے سابق وزیراعظم نے بڑی سمجھداری کا مظاہرہ کیا انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی بھی نہیں کی اور اپنے کارکنوں کو خونریزی سے بھی بچالیا۔ سپریم کورٹ کا حکم تھا جلسہ کرو اور گھر جائو۔ حکومت نے اپنا کارڈ استعمال کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 245 کے تحت اہم عمارتوں اور مقامات کی حفاظت کے لیے فوج طلب کرلی تھی۔ 

عمران خان اپنے چارج اور جوشیلے نوجوانوں کے ہمراہ اگر ڈی چوک پہنچتے تو ان کے کارکن وہ کنٹینر گرا کران علاقوں میں داخل ہوجاتے جہاں فوج تعینات تھی اور ان کا فوج سے ٹکرائو بھی ہوسکتا تھا اور پھر خون خرابے کا خطرہ لازمی امر تھا ویسے ایک اطلاع کے مطابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے پولیس حکام کو خفیہ طور پر ہدایت کی ہوئی تھی کہ جب عمران خان ڈی چوک پہنچیں تو ان کے کنٹینر پر آنسو گیس کے شیلوں کی بوچاڑ کر دیں اور براہ راست کنٹینر کو نشانہ بنائیں اس بات کی بھی عمران خان کو اطلاع مل گئی اس دوران عمران خان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوسکتا تھا اور ان کی گرفتاری بھی ہوسکتی تھی ویسے ایمانداری کی بات ہے جتنی آنسو، گیس، لاٹھی چارج اور گھروں پرچھاپے عمران خان کی پارٹی کی خواتین، نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں نے برداشت کیے اس کی مثال نہیں ملتی تحریک انصاف کے ساتھ جو نوجوان خواتین اور بزرگ شہری ہیں۔ 

ان کی اکثریت ریٹائرڈ فوجیوں کی ہے جبکہ خواتین کا تعلق بھی کھاتے پیتے گھرانوں سے ہے مسلم لیگ ن والے تحریک انصاف میں شامل خواتین اور نوجوانوں کو ممی ڈیڈی گروپ کہتے ہیں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے اس ممی ڈیڈی گروپ کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے کئی ہزار شیل پھینکوا دیئے مگر انہیں گھروں کو نہیں بھیج سکے حکومت نے پارٹی لیڈروں اور کارکنوں کی گرفتاری کے لیے کئی سو چھاپے مارے پولیس نے چادر اور چار دیواری کے تحفظ کا حلیہ بگاڑ دیا، کئی سو کارکنان اور لیڈر گرفتار کرلیے گئے حتیٰ کے پولیس نے علامہ اقبال کی بہو جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال کو بھی نہیں بخشا اور نہ ہی ان کی عزت کا خیال کیا پولیس گیٹ توڑ کر ان کے گھر داخل ہوگئی اور خوف و ہراس پھیلایا۔ 

مسلم لیگ ن کے سنجیدہ رہنما نے اس غلطی کو برملا تسلیم کیا اور خواجہ آصف نے تو قومی اسمبلی میں معافی بھی مانگی عمران خان کے کارکنوں نے ثابت کیا کہ وہ لڑ بھی سکتے ہیں اور مر بھی سکتے ہیں اور عمران خان سے والہانہ عقیدت اور محبت رکھتے ہیں سابق وزیراعظم عمران خان کو نہ جانے کون مشورے دیتا ہے کہ آپ کہیں کہ میں 20 لاکھ لوگوں کو لائوں گا جب وہ 20 لاکھ لوگ لانے میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر حکومتی حلقوں کو ان کا مذاق اڑانے کا موقع ملتا ہے۔ 

اب انہوں نے 30 لاکھ لوگ لانے کا اعلان کیا ہے وہ صرف یہ بھی کہہ سکتے ہیں میں لاکھوں کو لے کر آئوں گا تو اس طرح بھی ان کا بیان کھپ سکتا ہے یہ بات تو واضح ہے کہ شہباز حکومت سابق وزیراعظم عمران خان کے غیر متوقع طور پر مقبول ہونے اور اپنے غیر مقبول ہونے کی وجہ سے گھبراہٹ کا شکار ضرور ہے خود اسٹیبلشمنٹ کو بھی یقین نہیں تھا کہ عمران خان اتنے پاپولر لیڈر کے طور پر ابھریں گے اگر اسٹیبلشمنٹ کو یہ اندازہ ہو جاتا تو شاید عدم اعتماد کی تحریک بھی کامیاب نہ ہوتی اور وہ اپنے آپ کو نیوٹرل قرار نہ دیتے اگر عمران خان کو مزید ایک سال حکومت کرنے دی جاتی تو شاید وہ آئندہ الیکشن میں 20 سیٹیں بھی نہ حاصل کرسکتے۔ 

مگر ان کی مقبولیت کا گراف اس وقت بہت اونچا ہے۔موجودہ حکومت معاشی بد حالی کی وجہ سے مشکل ترین دور کا سامنا کررہی ہے اس کی معاشی ٹیم بھی بہت زیادہ باصلاحیت نہیں ہے عمران خان نے حکومت کو چھ دن کا وقت بھی اسی لیے دیا ہے کہ آئی ایم ایف کڑی شرائط کے بغیر اس حکومت کو قرضہ نہیں دے گا اور اگر حکومت ان کڑی شرائط پر عمل کرتی ہے تو اسے غیر مقبول فیصلے کرنے پڑیں گے جن میں پٹرول، ڈیزل، گیس، بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا ٹارگٹ ملے گا۔ 

حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد شروع کردیا ہے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 30 روپے اضافہ کردیا ہے مگر آئی ایم ایف اس اضافے سے بھی مطمئن نہیں لہذا حکومت نے 90کروڑ ڈالر کی امداد لینی ہے تو اسے آئندہ چند دنوں میں مزید 30 روپے لٹر پڑول کی قیمت بڑھانا پڑے گی بجلی کی قیمت میں سات روپے فی یونٹ اضافہ کرنا پڑے گا اور بعض ٹیکسوں کی چھوٹ بھی واپس لینی پڑے گی۔

اب تو مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عوام میں چیخوں کی بھی سکت نہیں رہی عوام میں شدید ردعمل بڑھ رہا ہے جو خدانخواستہ بغاوت کی صورت میں سامنے آسکتا ہے ہماری اطلاع کے مطابق موجودہ حکومت نے اسٹیبلشمنٹ سے کہا ہے کہ ہمیں اگلا بجٹ بھی یعنی 2023ء کا بجٹ بھی پیش کرنے کی مہلت دی جائے تاکہ اس بجٹ میں ہم عوام کو کچھ سہولت دینے کے قابل ہوسکیں مگر اسٹیبلشمنٹ نے یہ کہہ کر انکار کردیا ہے ہم کیسے گارنٹی دے دیں آپ کے پاس تو صرف دو ووٹوں کی اکثریت ہے اور ویسے بھی ہم نیوٹرل ہیں مسلم لیگ ن کے بعض سرکردہ رہنما جن میں نواز شریف بھی شامل ہیں اس حق میں نہیں کہ اتنے مشکل معاشی حالات میں ہم حکومت میں رہیں مگر بعض مسلم لیگی رہنما اور آصف علی زرداری نہیں مان رہے تھے کہ اسمبلیاں قبل از وقت توڑ دی جائیں اور انتخابات کا اعلان کردیا جائے یہ بات تو واضح ہے آصف علی زرداری نے میاں شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا کر زبردست چال چلی ہے کہ جب مسلم لیگ ن کا وزیراعظم ہوگا تو عوام کے منفی جذبات مسلم لیگ نے کے خلاف ہوں گے مہنگائی کا سارا ردعمل مسلم لیگ ن کے خلاف ہوگا۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید