پچھلی شب لاہور ائیرپورٹ کے منظر نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ یہ ڈیپارچر لاؤنج تھا۔ کوئی دو برس کی بچی تھی۔ باپ خداحافظ کہہ کر مسافروں کی قطار میں لگ گیا۔ بچی نے جو اندازہ کیا کہ بابا چھوڑ کر جارہے ہیں۔ وہ اتنی بلند آواز سے روئی کہ اس کا تڑپنا دیکھا نہ جاتا تھا۔تین لوگ جو گاڑی میں ساتھ آئے تھے اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے تھے۔اس کی زبان پر یہی تھا۔۔بابا پاس۔۔بابا پاس ۔۔وہ ہاتھ اٹھا کر قطار کی طرف دیکھ کر مچل رہی تھی۔میرے پہلو میں کھڑی ساتھی بولیں۔"بچی کی چیخ و پکار پر تو سب متوجہ ہوگئے ،مگر بابا کا دل کسی کو نظر نہیں آرہا۔ ممکن ہے بابا آنسوؤں کو بمشکل حلق میں دھکیل رہے ہوں۔
یہ ’’بابا‘‘ کا رشتہ بھی کتنا عجیب رشتہ ہے۔ خود اپنے لیے نہیں جیتے،زندگی بھر جو کماتے ہیں اس کا پانچ فی صدبھی اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتے۔ اپنی جوانی اور بہترین صلاحیتیں لگا کر گھر والوں کی خوشیاں خریدتے ہیں۔مائیں تو بچوں کے ساتھ سائے کی طرح رہتی ہیں۔ شیرمادر کے ہر قطرے سے ان میں اپنی محبت اتارتی ہیں۔ان کی گود کی گرمی سے بچے کی حسیات بیدار ہوتی ہے، مگر یہ بابا تو صبح جاکر رات کو پلٹتے ہیں۔ چھٹی کا دن زیادہ مصروف گزارتے ہیں کہ اہل خانہ کا اگلا ہفتہ سہل گزر جائے،کچھ بابا تو تلاش معاش میں دیار غیر ہی کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔
وہ بھائی ہیں تو بہنوں کی شادی،بیٹا ہے تو والدین کی کفالت و بیماری کا فریضہ۔ ہمارے والد آٹھ بچوں کے لیے گاؤں سے خالص شہد اور مکھن منگواتے تھے۔ گھر میں دیسی انڈے آتے تھے۔ کبھی مرغیاں پال لیتے کہ بچوں کی صحت اچھی ہوگی تو اچھا لکھیں پڑھیں گے۔ ایک صبح امی کو غصہ آگیا۔ اس پاجامے میں دو بار پیوند لگاچکی ہوں اب نیا پاجامہ بنوا لیں۔کل ہی لٹھا لا کر چار پاجامے سی دیتی ہوں۔
بابا،بولےیہ پیوند میرے نبی ؐکی سنت ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا جب کہتے تھے سالن نکال کر خالی دیگچی مجھے دے دو۔ رزق کی بے حرمتی ہوتی ہے،برتن بددعا کرتا ہے، اس کو روٹی سے پونچھ کر صاف کرنا چاہیے۔کبھی ہمارے ساتھ دسترخوان پر نہ بیٹھے آخر میں بچی پلیٹوں کو روٹی سے صاف کرتے کہ یہ میرے نبی ؐ کی سنت ہے۔ سب بابا ایسے ہی ہوتے ہیں۔ وہ باپ کے انتقال پر تڑپ رہی تھیں کہ اکلوتا بھائی دیار غیر سے نہ آسکا۔ ابا نے قسم دی تھی کہ اس کو میری بیماری’’ کینسر ‘‘کا نہ بتانا، زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کر دے گا میری بیماری پر!گھر کے چار کمروں میں ائرکنڈیشن ہوتا تو صرف امی بابا کے کمرے کا نہیں چلتا۔
جب بچے ناراض ہوتے ہیں کہ اتنی گرمی میں بھی خیال نہیں رکھا اپنا تو ایک معصوم سا عذر کہ بیٹے ’’مصنوعی ٹھنڈک ‘‘سے ٹخنوں کی ہڈیاں متاثر ہوتی ہیں۔یہ بابا لوگ بڑے مضبوط ہوتے ہیں اپنے دکھ طشتری میں سجا کر تھوڑی پیش کرتے ہیں۔ میرے بچوں کے باپ کی طرح بہت سے بابا بیوی بچوں کو شاپنگ کراتے ہیں جب اصرار کیا کہ اپنے کپڑے بھی خرید لیں تو ایک ہی جواب ملا۔مجھے فلاں درزی کی فٹنگ ہی درست آتی ہے اور یوں ہمیشہ خودعام دکان سے عید کا جوڑا خریدا۔
ہمارے معاشرے میں خون پسینہ کی گاڑھی کمائی سے بچوں کو جوان کرنے والے بابا مارے حیا کے کبھی جوان بیٹوں سے ان کی تنخواہ تک نہیں پوچھتے،کبھی فرمائش نہیں کرتےخود کو گھر کے کونے تک محدود کر لیتے ہیں کہ زیادہ چلنے پھرنے سے دوسروں کی پرائیویسی متاثر نہ ہو۔ واقعی یہ بابا کتنے انمو ل ہوتے ہیں۔