اس حقیقت کے باوجود کہ اپوزیشن کی جانب سے بڑے بڑے عوامی اجتماعات ٗ جلسے جلوسوں مظاہروں اور ہنگاموں کے باوجود پاکستان میں نہ تو کوئی حکومت گئی ہے اور نہ اس طرح کوئی حکومت اقتدار میں آئی ہے البتہ ایسی صورتحال کا نتیجہ مارشل لاء کی شکل میں ضرور نکلا ہے ملک میں حکومت کی تبدیلی کیلئے پس پردہ حقائق عوامل اورر محرکات کچھ اور ہوتے ہیں۔ پس منظر میں رہ کر پیش منظر ترتیب دینے والی طاقتیں کوئی اور ہوتی ہیں اور عام طور پر یہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ اپوزیشن نے حکومت گرا دی اور عوامی طاقت سے اقتدار میں آ گئی۔
پاکستان میں اس عمل کے حوالے سے طاقت ور اداروں کے ساتھ ساتھ سپر پاور اور بعض عالمی طاقتوں کے کردار کا ذکر بھی کثرت سے کیا جاتا ہے۔ جن کے فیصلوں کوحرف آخر اور فیصلہ کن سمجھا جاتا ہے اور ان طاقتوں کے بارے میں اس وقت اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کسی کا نام ڈھکے چھپے لفظوں اور اشاروں کناہیوں میں لیتے ہیں اور بالخصوص سپر پاور امریکہ کا نام اعلانیہ لیتے ہوئے تنقید اور ان کے غیر جانب دارانہ کردار پر بھی انگلی اٹھاتے ہیں پھر یہ انہی طاقت سے اقتدار حاصل کرنے کیلئے تعاون کے طلبگار بھی ہیں۔
دو ٹوک اور واضح لفظوں میں بات کی جائے توایک سے زیادہ جن اداروں کو وہ طاقت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں اگر بقول ان کے وہی ان کے خلاف ہیں اور جس ملک کو اپنی حکومت سازش کے ذریعے ختم کرانے کی ذمہ دار قراردیتے ہیں تو ان کی موجودگی اور فعالیت میں انہیں اقتدار کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر عمران خان ان اداروں اور طاقتوں سے لا تعلق ہوکر ہجوم پر انحصار کرکے اقتدار حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں تو واقعی یہ محض ا خواب ہی رہے گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ توکم از کم یہی بتاتی ہے اور صورتحال اس طرف جائے گی جس کا خدشات فی الوقت سر گوشیوں میں ہو رہے ہیں۔
بادی النظر میں تو ایسا ہی لگتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اتحادی جماعتیں اپنا اپنا وزارتی اور حکومتی حصہ لینے کے بعد آئندہ الیکشن کیلئے انفرادی تیاریوں میں مصروف ہو گئی ہیں اور چونکہ وزیراعظم کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اس لئے حکومت کو درپیش مشکلات کا صرف سامنا ہی نہیں بلکہ ذمہ دار بھی اسے ہی ٹھہرایا جارہا ہے اور خدشہ یہ بھی ہے داخلی سطح پر جن مشکل اور عوامی سطح پر ناپسندیدہ فیصلوں کی ذمہ داری وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر عائد کی جارہی ہے خارجی سطح پر بھی ان کی ذمہ داری انہی کے سر نہ تھوپ دی جائے اور مستقبل کی سیاسی تاریخ میں ان واقعات اور اقدامات کا تذکرہ اس جماعت اور اس کے وزیراعظم کے حوالے سے کیا جائے۔
شاید ان فیصلوں کے حوالے سے یہ ذکر بھی نہ آئے کہ اس وقت ’’ایک پیج پر‘‘ کون کون تھا۔ پٹرول کی قیمتوں میں تاریخی اضافے کا فیصلہ اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والی واقعتاً کمرتوڑ مہنگائی روزمرہ ضروریات زندگی کی قیمتوں میں دس دس گنا اضافہ گوکہ ان فیصلوں کا جواز موجود بھی تھا لیکن ووٹ دینے والے غریب عوام جواز تسلیم نہیں کریں گے جواب مانگتے ہیں کہ ۔ ’’کیا اسی دن کیلئے آپ کو ووٹ دیا تھا‘‘اور ان جیسے متعدد فیصلوں کا بوجھ حکومت کو تنہا اٹھانا پڑرہا ہے اور اہم اتحادی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے وزراء اس حوالے سے مدافعتی اور وضاحتی پریس کانفرنس میں حکومتی وزراء اور ترجمان کے ساتھ ڈھیلے ڈھالے انداز میں حکومت کے اتحادی ہونے کے ناطے اس مدافعت اور وضاحت میں شامل تو ہوتے ہیں لیکن ان میں اس جذبے اور عزم کا فقدان نظر آتا ہے جو عدم اعتماد کی تحریک اور حکومت بنانے کے موقعہ پر دکھائی دیتا تھا۔
آج مولانا فضل الرحمان نے اپنی پسندیدہ وزارتیں حاصل کرنے کے بعد اپنی جماعت کی نمائندگی کیلئے اپنے صاحبزادے مولانا اسعد الرحمان کو سامنے کر دیا ہے اور خود وہ تقریباً پس منظر میں ہیں البتہ ایک ہومیو پیتھک سا بیان کچھ دنوں بعد سامنے ضرور آجاتا ہے۔ اسی طرح سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی بلاول بھٹو کو اہم ترین وزارت دلوا کر اب سیاسی سرگرمیوں کا محا ز خود سنبھال لیا ہے اور وہ پرعزم اور پورے اعتماد سے بار بار یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس مرتبہ وہ پنجاب میں اپنی پارٹی کا پورا شیئر حاصل کریں گے اور وفاق میں بھی حکومت بنائیں گے۔
گوکہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پارلیمانی اور سیاسی قوت کے پیش نظر ان کا یہ دعویٰ ایک خواب دکھائی دیتا ہے لیکن ’’سیاسی چمتکار‘‘ دکھانے کے حوالے سے ان کا ٹریک ریکارڈ ہے کہ وہ مشکل کو آسان اور ناممکن کو ممکن بنانے کیلئے ہر وہ طریقہ اور ذرائع استعمال کرکے کامیابی حاصل کرتے ہیں جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
جو اتنی ’’اعلیٰ و ارفع‘‘ ہیں کہ ان کا یہاں ذکر ضروری نہیں۔ اس مرتبہ آصف زرداری صاحب نے موقعہ ملنے پر پاکستان کو ون ون زیرو ڈگری بدلنے کی بات بھی کی ہے۔ موجودہ صورتحال میں جبکہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت ہیں یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوسکے گا فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
دونوں حلیف جماعتیں ہیں لیکن حریف بننے میں بھی دیر نہیں لگتی۔ قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں گوکہ وزیر خزانہ کی جانب سے بجٹ پیش کرنے کے موقعہ پر چار دھائیوں سے یہ دیکھنے میں آرہا تھا کہ وزیر خزانہ کو بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب سے شدید ردعمل کا ’’عملی مظاہرہ‘‘ اور ایوان میں ہنگامہ آرائی کے یادگار مناظر دیکھنے میں نہ آئے ہوں اور اب تو بات برہنہ گالیوں اور ایک دوسرے کو زدوکوب کرنے کے واقعات بھی پیش آنے لگے تھے لیکن اتحادی حکومت میں یہ ریکارڈ بھی قائم ہوا ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو پرسکون ماحول میں بجٹ تقریر کا موقعہ ملا راجہ ریاض جو پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان کی قیادت بھی کر رہے ہیں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت میں ایوان میں اس مرحلے پر ان کی تقریر اس حوالے سے مضحکہ خیز بن گئی کہ وہ اپنی ماضی کی قیادت پر تنقید اور الزامات عائد کرتے رہے اور حکومت کی تعریف۔
جبکہ اپوزیشن لیڈر کا ایوان میں یہ ’’مسلمہ کردار‘‘ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی ہر سطح پر نکتے اور ہر فیصلے کی مخالفت کرے قیادت پر الزامات عائد کرے لیکن راجہ ریاض نے اپوزیشن لیڈر ہوتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میں آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کا امیدوار ہوں۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی راہنما اور اتحادی حکومت کے وفاقی وزیر سید خورشید شاہ نے ایوان میں ایک موقعہ پر یہ کہتے ہوئے تقریر کرنے سے انکار کر دیا کہ جب ایوان میں کورم ہی پورا نہیں تو میں تقریر کیوں کروں۔
اسی طرح حکومتی ارکان بھی ایوان میں وزراء اور بالخصوص وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی عدم موجودگی پر اعتراض اور احتجاج کرتے رہے اور یہ صورتحال صرف قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہی ہیں بلکہ ایوان بالا (سینٹ) میں اسی طرح کے مناظر، احتجاج اور تقاریر دیکھنے اور سننے میں آئیں۔