ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
دعا زہرا بار بار والدین سے منہ موڑ کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ برملا کہتی ہے کہ اسے ماں باپ کے ساتھ نہیں رہنا۔ میڈیا کی یلغار، عدالتیں، پولیس کے چھاپے، تھانے، گرفتاری سے بچنے کے لیے جگہ جگہ در بدری، حکام بالا کی ملاقاتیں، رشتے دار اور والدین اسے اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹا نہیں سکے۔ دعا زہرا والدین کی التجاؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے پتھر کیوں بن گئی ہے؟ اس بارے میں مختلف آرا ءہیں۔
شاید وہ شدید خوف کے عالم میں ہے۔ کسی گینگ کی دھمکیاں، تشدد، یا موت کا ڈر؟ لیکن وہ تو عدالت میں کھڑی ہے، منصف، وکیل، پولیس کے اعلٰی افسران، میڈیا اور تماشائیوں کا ہجوم سامنے ہے۔ ایک لفظ منہ سے نکالنے کی دیر ہے اور ظہیر سمیت سب گرفتار۔ پھر کس بات کا ڈر؟
جب کہ ظہیر کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ نہ تعلیم، نہ عہدہ، نہ مرتبہ، نہ دولت، نہ وجاہت، پھر کیا ہے ایسا اس لڑکے میں جس کے لیے دعا اپنے ماں باپ کی بے بسی، اپنی ماں کے آنسو ، التجائیں، اپنے باپ کی درخواست، اپنی بدنامی اور حالات کا دباؤ نظر انداز کرتے ہوئے اپنے موقف پر قائم ہے۔ کچھ اور حقائق دیکھ لیتے ہیں جو مختلف انٹرویوز کے ذریعے ہم تک پہنچے۔
والدہ کا کہنا ہے کہ میں اینگزائٹی اور ڈپریشن کا شکار تھی اس لیے گھر دعا زہرہ سنبھالتی تھی۔ اپنی چھوٹی بہنوں کا خیال بھی وہی رکھتی تھی ۔وہ اسکول نہیں جا تی تھی۔ اس کی کوئی سہیلی نہیں تھی۔ دعا کوڑے کے تھیلے گلی میں رکھنے گئی تھی۔ میں نے دعا زہرا کو پب جی کھیلنے سے روک دیا تھا۔
بعدازاں اس نے دوسرا گیم کھیلنا شروع کردیا ،جس میں اس کی دوستی ظہیر سے ہوئی۔ یہ سن کر حیرت ہو ئی کہ بچی اسکول نہیں جاتی، سہلیوں سے نہیں ملتی، ماں باپ کی روک ٹوک کے ساتھ گھریلو کاموں اور چھوٹی بہنوں کے کاموں کی ذمہ داری، کیا ایک ٹین ایجر کی زندگی میں کچھ اس کے اپنے لیے بھی ہے؟
ساری صورت ِحال دیکھنے کے بعد ایک طر ف ذہن میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ کشش ظہیر میں نہیں بلکہ اس رشتے کے ذریعے حاصل ہونے والی آزادی اور اپنی مرضی کے جادو میں ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جس کے سہارے دعا زہرا ساری دنیا کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ہمارے کچھ سوال ہیں اور ان کا مقصد دعا کے والدین کا دل دکھانا نہیں، بلکہ تمام بچیوں کے والدین کو آئینہ دکھانا ہے۔
کیا دعا کو اپنی مرضی کے کپڑے پہننے کی اجازت تھی؟
کیا دعا کو اپنی مرضی کی کتابیں اور رسالے پڑھنے کی اجازت تھی؟
کیا دعا کی پٹائی ہوتی تھی؟
کیا معمولی باتوں پہ ڈانٹ پھٹکار زندگی کا حصہ تھی؟
کیا دعا کو ٹی وی پراپنی مرضی کے پروگرام دیکھنے کی اجازت تھی؟
کیا دعا کو سہیلیاں بنانے کی اجازت تھی؟
کیا دعا کھیل کود میں حصہ لیتی تھی؟
کیا ہوتا اگر دعاگھر کے کام نہ کرتی؟
کیا دعا کو اجازت تھی کہ وہ چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کرے؟
کیا دعا کو اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی؟
کیا دعا شادی کی بجائے کیرئیر بنانے کا خواب دیکھ سکتی تھی؟
کیا دعا کو اپنی مرضی سے سونے جاگنے کی اجازت تھی؟
کیا دعا اپنی مرضی سے اپنے شوق اور مشغلے اپنا کر پورے کر سکتی تھی؟
کیا دعا کو اجازت تھی کہ وہ سیر و تفریح کے لیے باہر جائے؟
کیا دعا کو فیشن کرنے کی اجازت تھی؟
کیا دعا کو جیب خرچ ملتا تھا؟
گھر کا ماحول کیسا تھا؟
کیا ماں باپ کے آپس کے تعلقات خوشگوار تھے یا گھر میدان کارزار بنا ہوا تھا؟ والدین کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بچّوں کا پیٹ بھرنا اور چھت فراہم کرنا کا فی نہیں ہوتا۔ بچے کی خواہشات پوری نہ کرنا، اس کے لیے اس کی اپنی مرضی کا دروازہ نہ کھولنا، پرسکون ماحول فراہم نہ کرنا، اس پر اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ لادنا، اس کی خواہشات کو نظر انداز کرنا، اسے زمانے کے دھارے سے کاٹ کر پروان چڑھانا، اس کی غلطیوں پر بے پناہ سرزنش کرنا، بچے کو قبل از وقت بڑا بنا دینا، بچے کو روبوٹ سمجھ کر ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا وہ غلطیاں ہیں جن کی سزا آپ بھی بھگتیں گے اور بچہ بھی۔
دعا کی تصویریں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ اگر ان حالات میں بھی دعا اپنی مرضی سے گھوم پھر رہی ہے، ہوٹلنگ کر رہی ہے، سالگرہ کا کیک کاٹ رہی ہے تو کیا ایسا تو نہیں کہ وہ کھلی فضا میں سانس لینا چاہتی ہے؟ وہ اپنی مرضی سے اپنی زندگی جینا چاہتی ہے اور اس نے یہ راستہ ظہیر کے ذریعے چنا ہے۔
اس طوفان سے گزرنا دعا کے لیے بھی آسان نہیں۔ محبت کرنے والے ماں باپ سے منہ موڑ کر گزر جانا کسی ایسے زخم کا نشان ہے جو وقت ہی بتائے گا۔ ماں باپ سے ہماری درخواست ہے اپنی نوعمر بیٹیوں کے گرد دیواریں اس قدر بڑی نہ کریں کہ وہ سانس نہ لے سکیں۔ انہیں محبت، آزادی اور ان کی مرضی کی ہتھکڑی پہنائیں۔ یقین کیجئے، وہ آپ کی محبت کا مان رکھیں گی۔