اسلام آباد (فاروق اقدس) پنجاب کے 20 ضمنی حلقوں میں ہونے والے انتخابات اب محض چار دن کی مسافت پر ہیں اور 17 جولائی اتوار کو ہونے والے ان انتخابات کے حوالے سے صرف انتخابی حلقوں اور پنجاب میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں نتائج کے حوالے سے تجسس، اضطراب کامیابی کے دعوئوں اور ناکامی کے خوف کے ساتھ ساتھ بعض خدشات بھی سراٹھا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دینے پر پاکستان تحریک انصاف کے 25 منحرف اراکین اسمبلی کو ’’ڈی سیٹ‘‘ کر دیا تھا جس کے بعد اب ان خالی حلقوں پر 17 جولائی کو ضمنی الیکشن ہونے جارہے ہیں کئی ہفتوں سے جاری رہنے والی سیاسی اور انتخابی سرگرمیوں کے بعد اب چار دن پیشتر تک یہ بات یقینی اور حتمی طور پر سامنے آئی ہے کہ اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہی ہے اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں جبکہ الزامات کا سلسلہ بھی عروج پر ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں حمزہ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ بچانے کیلئے نصف یعنی لگ بھگ 10 نشستیں بہرحال حاصل کرنی ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی ترجیح میں 10سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کا ہدف اس لئے بھی ہے کہ ایک طرف تو وہ پنجاب میں دوبارہ حکومت حاصل کرنے کے خواب کی تعبیر حاصل کرلے گی تو دوسری طرف آئندہ ملک میں عام انتخابات کیلئے تاریخ کا تعین کرانے سمیت وہ اپنی دیگر شرائط منوانے کیلئے حالات اپنے حق میں سازگار کرسکتی ہے۔ ایک طرف تو پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے ارکان اسمبلی نے بیک وقت اپنی جماعت سے سیاسی وابستگی تبدیل کرکے اس کی حریف سیاسی جماعت کو ووٹ دیکر ان کی حکومت بنوا دی تو دوسری طرف ان انتخابات کے نتائج ملک میں جنرل الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت کیلئے ہی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کریں گے بلکہ اس کے سوا بھی ملکی سیاست، طرز حکومت، خارجہ پالیسی، اداروں کے کردار سمیت اہم فیصلوں پر اثرانداز ہوکر دور رس نتائج مرتب کریں گے یہی وجہ ہے کہ عمران خان پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم چلانے کیلئے خود میدان میں آئے ہیں اور اب تک انہوں نے اپنی تقاریر میں الزامات اور خدشات کی بنیاد پر ایک ایسی فضاء بنانے کی کوشش کی ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) ان انتخابات میں اپنے امیدواروں کو کامیاب کرا لیتی ہے تو وہ اسے پنجاب حکومت کی انتظامی دھاندلی، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت قرار دیں اور یہ بیانیہ سامنے لیکر آئیں کہ ۔’’ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مذکورہ طاقتیں دھاندلی میں اپنا کردار ادا کریں گی‘‘۔