• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

عوامی ریلیف: حکومت کو سیاسی مشکلات سے نکال سکتا ہے

وزیر اعظم شہباز شریف کی سر براہی میں وسیع البنیاد مخلوط حکومت نے بظاہر سابق وزیر اعظم عمران خان کو سیا سی طور پر تنہا کرکے اپنے قدم جما لئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس اتحادی حکومت کو بھی مہنگائی کے چیلنج کا سامنا ہے بلکہ مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ شرح بیورو آف شماریات کے مطابق گزشتہ ہفتے 33 فیصد پر چلی گئی جو نہایت تشویشناک امر ہے۔ گزشتہ ہفتے 30اشیاء مہنگی ہوئی ہیں۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے حکومت میں آنے سے قبل پی ٹی آئی کے خلاف جو تحریک چلائی تھی اس کی بنیاد مہنگائی کو بنایا گیا تھا۔

بلاول بھٹو نے کراچی سے اسلام آ باد تک جو مارچ کیا اس کا نام بھی مہنگائی مارچ رکھا تھا۔ اس وقت عمران خان اور ان کے وزراء مہنگائی کا جواز عالمی محرکات کو بناتے تھے ۔ عمران خان کہا کرتے تھے کہ جدید اور ترقی یافتہ ملکوں کو بھی مہنگائی کا سامنا ہے اس میں حکومت کا کوئی دوش نہیں ہے۔ اب موجودہ حکو مت کے وزراء بھی وہی جوا زدے رہے ہیں ۔ حکومت جو بھی جواز پیش کرے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔ عام آدمی کی قوت خرید جواب دے گئی ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کے ساتھ بجلی اور گیس کے ٹیرف میں اضافہ نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ 

معاشی اعشاریوں کو دیکھیں تو سٹاک مارکیٹ 41 ہزار کی کم ترین سطح پر ہے جہاں پی ٹی آئی کے دور میں تھی۔ ڈالر ابھی تک 189روپے کی اس شرح پر واپس نہیں آسکا جہاں 10اپریل کو عمران خان چھوڑ کر گئے تھے۔ بجٹ میں بھی ریونیو کا ہدف تو بڑھا دیا گیا ہے لیکن ا س کیلئے ٹیکسز بھی لگا ئے گئے ہیں۔ اب یہ اچھی خبر آئی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں  خوردنی تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک سو سے ڈیڑھ سو روپے کلو خوردنی تیل سستا ہونے کا امکان ہے۔ 

سب سے بڑا مسلہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا ہے جس کی بڑی وجہ روس اور یوکرائن کی جنگ ہے ۔ اب عالمی مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے جو خو ش آئند ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کا ووٹر مایوس نظر آ تا ہے۔ عوام میں حکومت کی مقبولیت کا گراف متاثر ہو رہا ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم نے یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے پیکج دیا ہے جس کا غریب لوگوں کو فائدہ ہورہا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین کو دو ہزار روپے ماہانہ اضافی مل رہے ہیں۔ لیکن اس وقت سے سے زیادہ مالی دباؤ کا سامنا متوسط طبقے کے سفید پوش لوگوں کو ہے۔ 

اب یہ حالت ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل کے استعمال میں 20فی صد کمی واقع ہوگئی ہے۔ کار کا ستعمال اب محدود ہو رہا ہے۔ صاحب کار بھی اب موٹر سائیکل یا پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ 17جولائی کو پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں میں  الیکشن ہو رہا ہے۔ مہنگائی کا عنصر ان انتخابات پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے پنجاب کے بجلی کے ان صا رفین کو پیکج دیا تھا جو ایک سو یونٹ استعمال کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اسے چیلنج کرکے زیادتی کی کیونکہ یہ بیس حلقوں کیلئے نہیں بلکہ پورے صوبہ کیلئے تھا۔یہ ان کا غلط سیا سی فیصلہ ہے جس پر یقیناً لوگ پی ٹی آئی سے ناراض ہوں گے۔ 

پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کچھ کمی کر کے وزیراعظم سیا سی ثمرات سمیٹ سکتے ہیں۔ اس وقت عام آدمی کا مسلہ مہنگائی ہے لیکن یہ حیرانی کی بات ہے کہ عمران خان کی سوئی ابھی تک امریکہ بہادر میں پھنسی ہوئی ہے۔ وہ امریکی غلامی کا چورن بیچ رہے ہیں۔ انہیں اب یہ مان لینا چاہئے کہ اب اس ایشو میں کوئی جان نہیں رہی۔ عمران خان کی سیا ست تضادات کا مجموعہ ہے۔ وہ ایک جانب امریکی صدر سے ملاقات پر جشن مناتے رہے۔ امریکہ کی خوشنودی کیلئے سی پیک کو سرد خانے میں دالا۔ چینی صدر کا دورہ موخر کرایا۔ ان کی ٹیم میں امریکی شہر یت والے لوگ شامل ہیں لیکن دوسری جانب امریکہ کو عو امی اجتماعات میں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ 

اسی طرح وہ اسٹیبلشمنٹ کو امریکہ کا سہولت کا ر قرار دیتے ہیں اور الزم لگاتے ہیں کہ امریکہ کے کہنے پر اسٹیبلشمنٹ نے انہیں حکومت سے نکالا۔ انہوں نے عسکری شخصیت کے خلاف سوشل میڈیا پر کمپین چلوائی تاکہ انہیں دباؤ میں لایا جا سکے۔ انہوں نے جہاں قوم کو تقسیم کرنے کی سیا ست کی وہاں اداروں میں بھی تقسیم کی کوشش کی جو ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک جانب وہ اسٹیبلشمنٹ پر الزامات لگاتے ہیں دوسری جانب انہیں خدا کے واسطے دیتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے کہ انہیں واپس لے آئیں۔ سیا سی جلسوں میں وہ مخالف سیاسی رہ نماؤں کو جن القابات سے پکار رہے ہیں۔ وہ افسوسناک ہے۔ انہیں یہ عامیانہ لب و لہجہ نہیں اختیار کرنا چاہئے ۔ ان کی اس روش کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے ورکرز سوشل میڈیا پر مخالفین کی کردار کشی کرتے ہیں۔ 

عمران خان نے سیاسی اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کردیا ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کے ساتھ ریسٹورنٹ میں جو رویہ پی ٹی آئی کے ورکرز نے اپنا یا وہ نہایت افسوسناک ہے۔ سیا ست میں بھی ایک دوسرے کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ سب سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ورکرز کو دوسری سیا سی جماعت کی قیادت کا نام احترام سے لینا چاہئے ۔ اگر پارٹی لیڈر خود ہی تضحیک آ میز رویہ اپنائے گا تو ان کے کا رکن ان سے ایک ہاتھ آگے جائیں گے۔ 

عمران خان عام انتخابات کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں لیکن استعفے صرف قومی اسمبلی سے دیے ہیں یہ بھی کھلا تضاد ہے۔ فرح گوگی کے دفاع نے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ الیکشن فوری طور پر ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ دراصل عمران خان کو یہ خوف ہے کہ موجودہ حکومت جتنی دیر رہے گی اتنے ہی ان کے دور حکومت کے سکینڈلز سامنے آئیں گے۔ اس سے پہلے چونکہ وہ کبھی حکومت میں نہیں رہے اسلئے مسٹر کلین بنے ہوئے تھے ۔ اب ان کے پونے چار سالہ دور کے کیسز سامنے آنے سےان کا بھرم ٹوٹ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ون پوائنٹ ایجنڈا فوری الیکشن کا ہے۔ 

عمران خان کا پرابلم یہ ہے کہ انہوں نے ایک جانب اپنی سیا سی مخالفین سے بات چیت کے دوازے بند کردیے دوسری جانب مقتدر حلقوں سے بھی بگاڑ لی۔ الیکشن کمیشن پر بھی الزامات لگا رہے ہیں۔ عدلیہ کو بھی نہیں بخشتے۔ یہ غیر سیاسی اور بے لچک رویہ انہیں بند گلی میں لے جا رہا ہے۔ طیبہ گل کیس ان کیلئے گلے کی ہڈی بن سکتا ہے۔ طیبہ گل کا یہ الزام بہت سیریس ہے کہ انہیں 45دن وزیر اعظم ہائوس میں حبس بیجا میں رکھا گیا۔ 

سابق وزیر اعظم عمران خان کے اس وقت کے سیکرٹری اور ایک معاون خصوصی سے ملاقات اور وڈیو اور آڈیو دینے کا معاملہ بھی بہت سنگین ہے۔ ان الزامات کی حقیقیت تو وقت ثابت کرے گا لیکن جہاں سابق چیئر مین نیب جسٹس (ر)  جا وید اقبال کی ذات متنازعہ بنی ہے وہیں عمران خان کیلئے بھی سیا سی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ پی ا ے سی کے متحرک چیئر مین نورل عالم خان دباؤ لینے والی شخصیت نہیں ہیں۔ وہ اس معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔ ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک وزیر اعظم اور اپو زیشن لیڈر میں نئے چیئر مین نیب کے نام پر اتفاق نہیں ہوسکا۔

وزیر اعظم شہباز شریف خود بہت متحرک ہیں۔ محنتی ہیں ۔ اتحادی جماعتوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں لیکن اس کے با وجود اتحادیوں کی فرمائشیں پوری نہیں ہوتیں۔ ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی ان سے توقعات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ سے کابینہ کا حجم بڑھتا جا ر ہا ہے۔ کابینہ کی تعداد 56 ہوگئی ہے اگرچہ بعض کی تقرری اعزازی ہے لیکن بہر حال انہیں منصب سے تو نوازا گیا ہے۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ نئے چیئر مین نیب کی تقرری جلد کریں تاکہ احتساب کا عمل تیز ہو۔ یہ بھی معلوم ہوسکے کہ اس الزم میں کتنی حقیقت ہے کہ سابق چیئر مین نیب نے سابق حکومت کے دباؤ میں آکر یا مبینہ طور پر بلیک میل ہوکر بعض کیسز کو ختم کردیا یا دبا دیا۔

پنجاب کا ضمنی الیکشن قومی انتخابات سے پہلے بیرو میٹر ہے جس سے اندازہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہے اور مسلم لیگ ن کہاں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی سیاسی مستقبل بھی ان لیکشن سے جڑا ہے۔ عمران خان ایک جانب جلسوں میں ورکرز کو مبارکبا د یتے ہیں کہ ہم الیکشن جیت چکے ہیں دوسری جانب مسلسل دھا ندلی کے الزامات بھی لگا رہے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف بھی پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ 

دراصل حکومت پنجاب کے ضمنی الیکشن کا ریزلٹ دیکھ کر ان ارکان کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اپنا فوکس مہنگائی کے خاتمہ پر کریں۔ 40 وزارتوں کا حجم زیادہ ہے۔ اس میں کمی لائیں۔ انتظامی اخراجا ت کم کئے جائیں۔ خسارے میں جانے والے اداروں کی نج کاری کا عمل تیز کیا جا ئے۔ غیر ملکی سر مایہ کاری لانے کیلئے کوششیں تیز کی جائیں۔پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 24 جولائی کو ہوگا۔ قومی ایشوز کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے۔ قومی میثاق معیشت پر دستخط کئے جائیں تاکہ پالیسی میں تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے بغیر سر مایہ کا ری ممکن نہیں ہے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید