• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا ایک دوست مجھے سے کہنے لگا میر ارشتہ ہو گیا تھا، مگر میں نے توڑ دیا ہے

میں نے پوچھا کیوں توڑا ؟

کہنے لگا چند ماہ قبل میرے ابو بیمار ہوئے تھے تو میرے سسرال والے عیادت کے لیے خالی ہاتھ آئے ، نہ پھل لائے اور نہ ہی کچھ روپیہ پیسہ دے کر گئے

میرے ابو نے کہا کہ آج یہ لوگ ایسے ہیں تو کل کیا کریں گے۔ مطلب کوئی لینا دینا نہیں ،اس لئے میں نے رشتہ ہی توڑ دیا۔

مگر یہ تو بتاؤں اس لڑکی کے گھر والوں کے حالات کیسے تھے۔

کہنے لگا کہ بہت غریب ہیں۔ کام کاج کرتے ہیں تو دو وقت کی روٹی بھی با مشکل کھاتے ہیں۔

میں نے کہا کہ میرے بھائی جب تم ان کی غربت کے بارے میں سب جانتے ہو تو پھر ایسا کیوں کیا۔

کبھی سوچا ہے رشتہ توڑتے وقت لڑکی اور اس کے ماں باپ پر کیا گزری ہوگی؟ اس بیچاری لڑکی پہ کیا گزری ہوگی کہ مجھے غربت کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا۔

ابو کہتے ہیں کہ اب رشتہ امیر گھرانے میں کرواؤں گا جو شاندار جہیز دیں سکیں تمہیں کاروبار سیٹ کروا سکیں

میں مسکرایا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ تمہارے ابو کہتے ہیں یا تمہارا دل کہتا ہے۔ جو اپنے زور بازو پر یقین نہ کر سکے وہ دوست تو کیا انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں

آج اگر بیٹی والوں کا رشتہ ٹوٹ جائے تو لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ شاید ان کی بیٹی میں کوئی خامی ہے۔

اگر بیٹے والوں کا رشتہ ٹوٹ جائے تو لڑکا فخر سے کہتا ہے۔ مجھے پسند نہیں تھی تو میں نے چھوڑ دیا۔

خدارا بیٹی والوں پر ایسا ظلم نہ کریں۔

کبھی بھی کسی لڑکی کو اس کی غربت پہ نہ چھوڑیں نہ اس کے جزبات سے کھیلیں۔

یہ عورت ہی وہ ہستی ہے جو ہمیں دنیا میں لائی اور یہ عورت ہی وہ ہستی ہے، جس کے قدموں سے ہمیں جنت ملے گی بس روپ بدل لیتی ہے ماں کا، بیوی کا، بہن کا مگر ہوتی تو عورت ہی ہے نا ۔