ایک لفظ ہے ،’’ہومو سیپئینس‘‘ HOMO SAPIENS اس کو مار دو تو مر جاتا ہے۔ جلاؤ تو جل جاتا ہے۔ ڈبو دو تو ڈوب جاتا ہے۔ گراؤ تو گر جاتا ہے۔ایک اور لفظ ہے ہومو ریزیلیئنٹ HOMO RESILIENT اس کا یہ کمال ہے کہ مار دو تو زندہ ہو جاتا ہے۔ جلا دو تو بجھ کر شرارہ بن جاتا ہے۔ ڈبو دو تو تیرنے لگتا ہے اور گرا دو تو کھڑا ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے آج کل ساری عورتیں اسی کیٹیگری میں شمار ہوتی ہیں۔ خود دنیا میں آنے سے لے کر دوسری جان کو دنیا میں لانے تک کا سفر کتنا مختصر سا محسوس ہوتا ہے، مگر اس کی طوالت کا اندازہ تو صرف وہ ہی کر سکتا ہے جو خود اس راہ کا مسافر ہو۔
ہومو ریزیلیئنٹ تو وہ مخلوق ہے جو ذہنی، جسمانی، روحانی اور سماجی تشدد کے باوجود ناصرف زندہ بلکہ محبت کا استعارہ۔ کاری کردو، ونی کردو، بازار میں گھسیٹو، تیزاب سے جھلسا دو، آگ میں جلا دو پھر بھی زندہ۔ زندہ دفن کر دو پھر بھی زندہ۔ لڑکی پیدا کیوں ہوئی؟ باہر کیوں جھانکا ہنسی کیوں تالی کیوں بجائی۔ گالی۔ تھپڑ یا پھر طلاق۔ پھر بھی زندہ۔ اغوا کر لو۔ ریپ کردو، ہراس کرو ،خودکشی پر مجبور کردو ۔
اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر گندی زبان استعمال کرو۔ ذات پر حملہ کرو برا بھلا کہو پھر بھی سیاست سے باز نہیں آتی۔ محبت، تعلیم ،صحت اور وراثت نہ دو پھر بھی زندہ۔ حقوق مانگنے احتجاج کرنے پر بے حیا اور مغربی ایجنڈے پر کاربند ہونے کی نوید پھر بھی احتجاج سے باز نہیں آتی۔ ڈھیٹ، ہنسنے، گانے اور جینے پر پابندی لگا دو پھر بھی ہنستی ہے چاہے آنکھیں نم ہوں۔
پھر بھی گاتی ہے چاہے آواز درد میں ڈوبی ہو، پھر بھی جیتی ہے چاہے مار دیا گیا ہو، یعنی یہ نا فرمان باز نہیں آتی۔ نا ہی عالمی یوم خواتین منانے سے اور نہ ہی عورت مارچ سے۔ حالانکہ مذہبی امور کے ماہر حکومت کو سمجھا چکے ہیں کہ عورت مارچ سے امن و امان اور اسلامی معاشرے کو خطرہ ہے۔ اور اس ہی سے تو بے حیائی پھیلتی ہے۔ ہمیں تو حیا مارچ اور حجاب ڈے کی ضرورت ہے۔ عورت کو کبھی پھول، ہوا، خوشبو اور رنگ جیسے استعاروں سے یاد کیا جاتا تھا۔ جاوید اختر سے بہت معذرت کے ساتھ :
کسی کا حکم ہے ساری ہوائیں
ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے۔
ان کی رفتار کیا ہے
کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں
ذرا سر کشی کم کریں
اپنی حد میں ٹھہریں
غلط ہے ان کا ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے بغاوت کی علامت
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ہو گا ان کو چپ چاپ بہنا
عورت مارچ میں لگائے جانے والے نعرے ہی تو دراصل فحاشی کا منبع ہیں۔ میرا جسم میری مرضی سے بڑھ کر دنیا میں بے غیرتی اور فحاشی کا کوئی جملہ ایجاد ہی نہیں ہوا ایک عورت مارچ ہی سے تو اس معاشرے کو خطرہ ہے باقی مسائل تو حل ہو چکے۔ عوام کا متشدد رویہ۔ سیالکوٹ اور خانیوال میں ملکی اور غیر ملکی معصوموں کا بپھرے ہجوم کے ہاتھوں قتل۔
مدرسوں میں طالب علموں سے بد فعلی اور زیادتی۔ عورتوں کی تجارت۔ اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ اور ذمہ داران کی طرف سے ہراسمنٹ۔ بدزبان سیاستدان، کم علم رہنما، بے فہم اساتذہ اور بے شعور منتشر قوم تو بالکل بے ضرر سے ہیں سارا خرابہ تو صرف اور صرف عورت کی وجہ سے ہے بہت بے زاری طاری ہونے لگتی ہے۔ بقول عذرا عباس۔
جب بے زاری آتی ہے
دل چاہتا ہے کسی درخت کی
اونچی شاخ پر بیٹھ کر
لوگوں کو گزرتے دیکھوں
اور جب وہ گزریں تو
ان کے سروں پر تھوکتی جاؤں
بلکہ میرا دل چاہتا ہے کہ ساری عورتوں کے ساتھ درخت پر چڑھ جاؤں اور ان کے ساتھ مل کر نیچے گزرتے لوگوں کے سروں پر اتنا تھوکوں کے سارے غیرت مند اس تھوک کے سمندر میں ڈوب جائیں۔ یہی خیال کرتا ہے پریشان مجھے، میں مگر چھوڑیں ہم تو ہومو ریزیلیئنٹ( HOMO RESILIENT) ہیں۔ ماؤں، بہنوں، بیٹیوں آگے آجاؤ ۔ایک کلپ بناتے ہیں۔ یہ میں ہوں۔ یہ میرے ملک کی عورتیں ہیں اور ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔