• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اداروں کی مداخلت اور سیاست سے ریاست کمزور ہورہی ہے، 3 یا 5 ججز کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرے گا، مولانا فضل الرحمٰن

لاہور،لالہ موسیٰ،گجرات(خصوصی نمائندہ، نامہ نگار،نمائندہ جنگ،مانیٹرنگ سیل)سربراہ پی ڈی ایم مولانافضل الرحمٰن نےکہاہےکہ اداروں کی مداخلت اور سیاست سے ریاست کمزور ہورہی ہے، 3یا5ججز کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرے گا، حکومت کو حکومت کرنے دیں، وفاقی وزیر امور کشمیر قمرزمان کائرہ نےکہا(ق) لیگی ارکان نے پارٹی ڈائریکشن کے خلاف ووٹ ڈالا، مینڈیٹ پارلیمانی پارٹی کا نہیں پارٹی قیادت کا ہوتا ہے، مسائل پر مل کر بیٹھنے کی دعوت دیتے ہیں، مولانافضل الرحمٰن نےپریس کانفر نس کےدوران کہا ریاست کمزور ہورہی ہے، کسی بیرونی دشمن کے ہاتھ نہیں بلکہ ہمارے اپنے اداروں کی مداخلت اور سیاست کی وجہ سے ہو رہی ہے، حکومت کو حکومت کرنے دیں، حکومت نے چیلنج کے طور پر اس نظام کو قبول کیا ہوا ہے۔عجیب عجیب نئی نئی باتیں، عدالتی ماحول اور ان فضاؤں سے اٹھتی ہیں، عام آدمی کے کانوں میں پڑتی ہیں، انہیں اس پر تعجب ہو رہا ہے، ماضی میں جو فیصلے کیے گئے، وہاں کہیں بھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا، پارٹی لیڈر ہی پارٹی کے فیصلوں کا آخری اختیار رکھتا ہے، پوری دنیا کا نظام یہی ہے کہ کسی بھی ادارے یا پارٹی کا سربراہ، حکومت کا سربراہ ہی آخری اور فیصلہ کن قوت ہوتی ہے، باقی اس کے ماتحت ہوتے ہیں، تجویز دے سکتے ہیں۔پارلیمنٹ کے اندر چھوٹے بڑے معاملات پارلیمانی پارٹی طے کرتی ہے لیکن بعض اہم فیصلوں پارٹی قیادت ہی انہیں ہدایت جاری کرتی ہے، ایک بڑی واضح بات کو اور ایک معروف معاملے کو نظمی مسئلہ بنا دیا گیا، آج اس پر بحث ہو رہی ہے، پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی نے چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے لکھے گئے لیٹر کے بعد خود اعلان کر دیا کہ اب ہم ہار چکے۔ تعجب ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمٰی اس بات پر بحث کررہی ہے کہ ہمیں مسئلہ سمجھ نہیں آرہا، ہمیں مسئلے کو سمجھنا ہے، یہ چیزیں ایک دانشور کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتیں، اسی لیے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ یہ کیس اس وقت تین رکنی بینچ کے زیر سماعت ہے، یہ سپریم کورٹ کا فُل کورٹ سنے، تمام ججز سپریم کورٹ کے یہ ہمارا متفقہ مطالبہ ہے، پورے حکومتی اتحاد کا مطالبہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت کا وقار بحال رہے اور ان کے فیصلوں کو ہر شخص دل و جان سے قبول کرے، تین یا پانچ ججوں کا فیصلہ انصاف کے حوالے سے لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکے گا۔ہمارے اداروں میں یقیناً کچھ افراد ایسے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بے نقاب ہو جاتے ہیں جبکہ وہ دورانِ ملازمت پارٹی کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں، پی ٹی آئی کے ساتھ وابستگی رکھ رہے ہیں، ان کو یہی مشورہ دوں گا کہ آپ دوران ملازمت ایک جماعت کیلئے ادارے کو استعمال مت کریں، مستعفی ہو کر میدان میں آکر مقابلہ کریں۔ ادارے اس ملک پر رحم کریں، اپنی طاقت دکھانا، اپنی بالادستی دکھانا اور اس خواہش میں رہنا یہ شاید ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے۔مولانا فضل الرحمٰن نے سوال اٹھایا کہ عمران خان کو کون تحفظ دے رہا ہے، کیوں ادارے اپنا فرض سر انجام نہیں دے رہے بلا وجہ ایک شخص کو سہارا دے رہے ہیں، یہ چیزیں تشویش کا باعث ہیں، ہم بطور جماعت اس کیس میں فریق بنیں گے، آئینی ماہرین درخواست جمع کریں گے، فل کورٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔لالہ موسیٰ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئےوزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک مخصوص بینچ فیصلے کر رہا ہے اس لئے اتحادی جماعتوں کی قیادت کا عدلیہ سے مطالبہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے بحران کے حل کے لئے سپریم کورٹ کا فل بینچ تشکیل دیا جائے اور وہ فیصلہ کرے،موجودہ بینچ کا فیصلہ ہمارے خلاف آیا تو وہ ہضم نہیں ہو گا، عدلیہ کو ٹھنڈے دل سے پنجاب کی غیر یقینی صورتحال کو ختم کرنا ہو گا، سیاسی جماعتوں کے فیصلے پارٹی سربراہوں نے کرنے ہوتے ہیں پارلیمانی پارٹیاں بعد میں بنتی ہیں ایسے فیصلوں کا مینڈیٹ پارلیمانی پارٹیوں کے پاس نہیں ہوتا،چودھری شجاعت حسین ق لیگ کے صدر ہیں انہوں نے وزیر اعلیٰ کے الیکشن میں اپنی پارٹی کو کسی بھی جماعت کے امیدوارکو ووٹ دینے سے منع کیا تھا،جس پر ق لیگ کے ووٹ مسترد ہوئے اور حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے، حمزہ شہباز کو ٹرسٹی وزیر اعلیٰ بنانا آئین سے متصادم ہے، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو فارن فنڈنگ کیس بھی دیکھنا ہو گا اس کیس کے فیصلہ میں کتنے سال اور لگیں گے ، ق لیگ مرکز میں ہماری اتحادی جماعت ہے ان کے وزراء ہمارے ساتھ ہیں،انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا احترام ہم سب پر لازم ہے مگر پالیمان اور سیاستدانوں کا احترام بھی کرنا چائیے،پارلیمنٹ ماں کا درجہ رکھتی ہے اور ساری قانون سازی اور آئین بناتی ہے جس سے ادارے جنم لیتے ہیں،سیاسی معاملات عدالتوں کی بجائے پارلیمان میں حل ہونے چائیے، پنجاب اسمبلی میں مینڈیٹ ق لیگ کا ہے تحریک انصاف کا نہیں جو وہ شورمچا رہے ہیں کہ ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا، پرویز الٰہی کے ساتھ سب سے پہلے ہمارا معاہدہ ہوا بعد میں وہ عمران خان کے ساتھ ملے اور ہمارے ساتھ کیا گیا معاہدہ ختم کیا،جس سے ق لیگ تقسیم ہوئی،عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے وقت صدر مملکت،قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا کردار بھی سب کے سامنے ہے،سینیٹ کے الیکشن میں بھی جو کچھ کیا گیا وہ بھی قوم کے سامنے ہے، انہوں نے کہا کہ موجودہ ملکی صورتحال پر سب جماعتوں کی قیادت کو اکھٹے بیٹھ کر فیصلے کر نا ہوں گے،انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کھبی نہیں سوچا کہ عمران خان کے خلاف کیس بنانے ہیں،عمران خان کے خلاف کیس بنانا ہمارا کام نہیں،عمران خان نے ملک کی خارجہ پالیسی کو تباہ کیا دوست ممالک کو ناراض کیا،اداروں کے ساتھ تصادم کی پالیسی بنا رکھی ہے،گالم گلوچ کی سیاست کر رہے ہیں ان کو گالیوں کی سیاست سے اجتناب کرنا ہو گا، عمران خان ملکی مسائل کے حل کے لئے ہمارے ساتھ بیٹھے کو تیار نہیں ہیں تو ہمیں بھی ان کے ساتھ بیٹھے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ فوادچودھری اپنے خلاف فیصلے آنے پر پھانسی کے پھندے دکھاتے ہیں اب ان کو فیڈر والی سیاست سے باز آجانا چائیے،ہم نے ملک کی مضبوطی کے لئے سی او ڈی سائن کیا،تمام معمالات طے کئے جس سے ملک اورقوم کی بہتری ہو ئی،انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے،عمران خان تشدد اور انارکی کی سیاست کو پروان چڑھا رہے ہیں ایسی سیاست سے بچنا ہو گا،انہوں نے کہا کہ مہنگائی ہے حکومت مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے،پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو مہنگائی بھی بڑھتی ہے ڈالر کی قیمت بھی اثر انداز ہو تی ہے،ڈالر کی قیمت تمام ممالک کی کرنسی میں برھ رہی ہے،عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس پر عملدرآمد نہیں کیا جس سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ میں تاخیر ہو رہی ہے،قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اس وقت ہمارا مقصد یہ ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیں۔

اہم خبریں سے مزید