اسلام آباد(نمائندہ جنگ‘ٹی وی رپورٹ) سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن پر ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف درخواست کے کیس میں فل کورٹ بنانےکی استدعا مسترد کردی جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہی بنچ آج ( منگل ) صبح ساڑھے 11بجے مقدمے کی سماعت دوبارہ کرے گا‘ اپریل سے ہرگزرتے دن کے ساتھ بحران بڑھتا ہی جارہا ہے، فل کورٹ ستمبرمیں ہی بن سکے گا،کیا تب تک سب کام روک دیں؟ ریاست کے اہم ترین معاملات اس لیے لٹکا نہیں سکتے کہ آپ کی خواہش ہے‘ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں، کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور 179 لینے والا وزیراعلیٰ ہے، حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے، ریاست کے کام چلتے رہنے چاہئیں، ہمیں یہ ڈھونڈ کردے دیں کہ کہاں لکھا ہے پارٹی سربراہ غیرمنتخب بھی ہوتواس کی بات ماننا ہوتی ہے؟کئی گھنٹے تک عدالت نے سماعت کی، میرٹس پر دلائل سنے‘ معاملےکی بنیاد قانونی سوال ہےکہ ارکان اسمبلی کو ہدایت پارٹی سربراہ دے سکتا ہے یا نہیں۔عدالت نے چوہدری شجاعت اور پیپلز پارٹی کی فریق بننےکی درخواستیں منظور کرلیں۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ کے انتخاب میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، فل کورٹ پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سماعت میں وقفہ کیا گیا جس کے بعد عدالت نے فیصلہ سنایا۔مختصر فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ کئی گھنٹے تک عدالت نے سماعت کی، میرٹس پر دلائل سنے، معاملےکی بنیاد قانونی سوال ہےکہ ارکان اسمبلی کو ہدایت پارٹی سربراہ دے سکتا ہے یا نہیں، فل کورٹ بنانےکی استدعا مسترد کرتے ہیں۔ فل کورٹ نہ بنانے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کریں گے۔اس سے قبل سماعت کے آغاز پر سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پر آگئے اور مؤقف اپنایا کہ موجودہ صورتحال میں تمام بار کونسلز کی جانب سے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی درخواست مقرر کی جائے اور آئینی بحران سے نمٹنے کے لیے فل کورٹ بنایا جائے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مشکور ہیں کہ معاملہ ہمارے سامنے رکھا،10سابق صدور کے کہنے پر فیصلہ نہیں کر سکتے، دوسری طرف کو سننا بھی ضروری ہے۔فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ کیس میں فریق بننے کی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ذرا ابتدائی کیس کو سننے دیں، باقی معاملات بعد میں دیکھیں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ بیٹھیں، امید ہے آپ کی نشست ابھی بھی خالی ہو گی، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیٹ تو آنی جانی چیز ہے، سیٹ کا کیا مسئلہ ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کہ مناسب ہو گا آرٹیکل63اے کی تشریح پر نظرثانی درخواست پہلے سن لی جائے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اتنی کیا جلدی ہے بھون صاحب پہلے کیس تو سن لیں۔درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہبار صدور کا ان معاملات سے تعلق نہیں ہونا چاہیے، پہلے وہ جوابات سن لیں جو عدالت نے مانگے تھے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے وکیل کہاں ہیں؟ جس پر دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے بھی معاملے پر فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کر دی۔عرفان قادر نے کہا کہ پہلے فیصلہ دینے والے ججز ہی کیس سن رہے ہیں جس کی وجہ سے اضطراب پایا جاتا ہے،ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر نے عدالت کا 23 جولائی کا فیصلہ بھی پڑھ کر سنا دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا یہ تاثر کیسے ملا کہ پارلیمانی پارٹی یا ہیڈ کی بات ہوئی، جس پر عرفاق قادر نے کہا کہ یہ سوال تو آپ کا ہے جس پر یہ خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا ہے، قانونی سوال یہ ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا مؤقف الگ ہو اور پارٹی ہیڈ کا مختلف تو پھر کیا ہو گا؟ ۔چیف جسٹس نے عرفان قادر کو آئین کی کتاب سے آرٹیکل 63 اے پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی ہیڈ اور پارلیمانی پارٹی دونوں کا آرٹیکل 63 اے میں ذکر موجود ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ پہلے سنیں تو ہم کیا کہہ رہے ہیں جبکہ چیف جسٹس نے عرفان قادر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے آپ کو سننے میں مشکل پیش آ رہی ہے، اگلی بار عدالت کی بات کاٹی تو آپ واپس اپنی کرسی پر ہوں گے۔عرفان قادر نے کہا کہ آپ جتنا بھی ڈانٹ لیں میں برا نہیں مناؤں گا، آئین کا آرٹیکل 14 شخصی وقار اور جج کے وقار کی بات کرتا ہے، جج کو حق ہے کہ وہ وکیلوں کو ڈانٹے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ڈکلیریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایت ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟ عدالتی فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے جس نقطے کا حوالہ دیا وہ بتائیں، جس پر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے وکیل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ مسترد ہو جائے گا، یہی نقطہ ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارٹی ہدایت اور ڈکلیریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں، کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے؟وکیل منصور اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں درج ہے کہ پارٹی سربراہ کا کردار پارٹی کو ڈائریکشن دینا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے حمزہ شہباز کے وکیل سے کہا کہ سوال کا براہ راست جواب دیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ چودہویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی گئی، ترمیم شدہ آرٹیکل 63 اے پڑھیں، آرٹیکل 63 اے کے اصل ورژن میں دو تین زاویے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں، پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا، چودہویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے کون سے حصے پر انحصار کیا؟ جس پر حمزہ شہباز کے وکیل نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے پر فیصلے کے پیرا تھری پر انحصار کیا۔وکیل منصور اعوان نے بتایا کہ جسٹس عظمت سعید کا بینچ 8 رکنی تھا جس نے پارٹی سربراہ کے اختیارات کا فیصلہ دیا، جس پر جسٹس منیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کا فیصلہ من وعن میرے ذاتی خیال میں ہم پر بائنڈنگ نہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پارلیمانی پارٹی بھی پارٹی سربراہ کی ہی ہدایات پر چلتی ہے؟وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کے خلاف ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے، اگر5 رکنی بینچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بینچ ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالتی فیصلہ خلاف آئین قرار دینے کے نکتے پر رولز موجود ہیں جبکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا نکتہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے کے مختصر حکمنامے نے ابہامات کو جنم دیا، آرٹیکل 63 اے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں میں صرف ووٹ مسترد ہونے کا نکتہ ہے۔جسٹس عمر بندیال نے مزید کہا کہ پارلیمانی پارٹی ہدایت کیسے دے گی یہ الگ سوال ہے، ہدایت دینے کا طریقہ پارٹی میٹنگ ہو سکتی ہے یا پھر بذریعہ خط۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی پارٹی کا اختیار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، آرٹیکل 63 اے کہتا ہے جو رکن پارلیمانی پارٹی کی ہدایات نہ مانے اس کے خلاف ڈکلیریشن دی جاتی ہے، میرے دماغ میں کوئی ابہام نہیں کہ کس نے ڈکلیریشن دینی ہے، کس نے ڈائریکشن دینی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعت خود وہی ہوتی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہوتی ہے، پارٹی سربراہ کا کردار بہت اہم ہے، منحرف رکن کے خلاف پارٹی سربراہ ہی ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، ووٹ کس کو ڈالنا ہے ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی اور ریفرنس سربراہ بھیجے گا۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت میں واضح ہو گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹرشپ ختم ہونا ضروری ہے، ایک سینئر پارلیمانی لیڈر نے صدارتی ریفرنس کے دوران پارٹیوں میں آمریت کی شکایت کی تھی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو اپنے ارکان کو سننا ہو گا، بیرون ملک بیٹھے سیاسی لیڈر پارلیمانی ارکان کو ہدایات دیا کرتے تھے، آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمانی پارٹی کو مضبوط کیا گیا، پارلیمانی پارٹی کی بھی اپنی منشا ہوتی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے ہی فیصلے پر انحصار کر کے ووٹ مسترد کیے، آپ اگر ڈپٹی اسپیکر رولنگ کا دفاع کر رہے ہیں تو آپ نے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ تسلیم کر لیا، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کو قبول کرکے ہی اس پر انحصار کیا، بس اب یہ تعین ہونا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو صحیح سے سمجھا یا نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی معاملات میں پارلیمانی پارٹی کا بااختیار ہونا ضروری ہے، پارٹی سربراہ کی آمریت برقرار رہنے سے موروثی سیاست کا راستہ بند نہیں ہو گا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ ق لیگ ارکان نے کس کی ہدایات کے خلاف ووٹ دیا تھا؟ عوام جسے منتخب کرکے اسمبلی میں بھیجتی ہے ان ارکان کے پاس ہی مینڈیٹ ہوتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ برطانیہ میں تمام اختیارات پارلیمانی پارٹی کے ہوتے ہیں، برطانیہ میں پارلیمان کے اندر پارٹی سربراہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا، آئین واضح ہے کہ ارکان کو ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ آپ کا مؤقف ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی تشریح درست ہے؟ اگر عدالتی فیصلہ غلط ہے تو ووٹ مسترد بھی نہیں ہو سکتے۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ دوبارہ روسٹرم پر آئے اور دلائل میں کہا کہ منصور اعوان نوجوان وکیل ہیں، ان کے کندھوں پر بہت بوجھ ہے، تمام پارٹی اراکین کو چوہدری شجاعت کا خط اجلاس سے پہلے مل گیا تھا۔