• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنچ کی تشکیل پر چیف جسٹس کا اختیار ریگولیٹ کرنے کیلئے آئینی ترمیم کی جائے، سپریم کورٹ بار، پاکستان بار کونسل

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل سمیت بار کونسلز نے سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کرنے کا مطالبہ کردیا۔بدھ کو مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے دائرہ کار سے متعلق آئینی شقوں میں ترمیم کی جائے، چیف جسٹس کے کیس فکس کرنے اور بینچز بنانے کے اختیار کو ریگولیٹ کیا جائے ، چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن ممبران، ججز تقرری میں سنیارٹی کا اصول ہونا چاہیے،بینچ بنانا 5سینئر ترین ججوں کی صوابدید ہونی چاہیے، 184(3) کے مقدمات میں اپیل کا حق دیا جائے، سپریم کورٹ کا منگل کا فیصلہ حقائق اور قانون کیخلاف تصور کیا جائیگا، نظرثانی اپیلیں سننے والا بینچ مرکزی کیس سننے والے بینچ سے مختلف ہونے کیلئے سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کی جائے، بار کونسلز کا کوئی ذاتی مفاد نہیں نہ وہ کسی ایک جماعت کے ساتھ ہیں جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے کہا ہے کہ تمام بار ایسوسی ایشنز نے اعلی عدلیہ میں سنیارٹی کے برخلاف ہونے والی تقرریوں کو نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے۔بدھ کو صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے مختلف بار ایسوسی ایشنز کے عہدیداران کے ہمراہ پریس کانفرنس کی، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشنز کی دعوت پر تمام بار ایسوسی ایشنز نے شرکت کی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے مطالبہ کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف کیوریٹیو نظرثانی کو ختم کیا جائے اور حکومت فوری طور پر ہمارے مطالبہ پر عمل کرے۔احسن بھون نے کہا کہ تمام بار ایسوسی ایشنز نے اعلی عدلیہ میں سنیارٹی کے برخلاف ہونے والی تقرریوں کو نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان اور جوڈیشل کمیشن ممبران سنیارٹی اصول کو مد نظر رکھیں، 10، 12سال سے بار ایسوسی ایشنز مطالبہ کر رہی ہیں کہ دفعہ 184(3) کا طریقہ کار طے کیا جائے۔ احسن بھون نے کہا کہ دفعہ 184(3) کے مقدمات میں اپیل کا حق دیا جائے، حکومت سے بھی 184(3) میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے اور نظر ثانی کیس میں وکیل تبدیل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔سپریم کورٹ بار صدر نے کہا کہ کھیل کھیل میں ہماری معیشت کہاں پہنچ گئی۔ انہوںنے کہاکہ بیچز کی تشکیل کا فیصلہ سپریم کورٹ کے پانچ سینئر جج صاحبان کو کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ آئین اجازت دیتا ہے کہ تقرری کے لیے جج کا نام کوئی بھی جوڈیشل کمیشن کا ممبر کر سکتا ہے، جوڈیشل کمیشن کے رولز آئین کے برخلاف، ججوں کی تعیناتی کوئی انتخابی عمل نہیں ہے،ہم سیاسی ڈائیلاگ اور برداشت چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو عوامی نمائندوں نے ہی چلانا ہے مگر کچھ لوگ جمہوری نظام کو ناکام کر رہے ہیں اور قاضی فائز عیسیٰ کے خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ میں تقسیم ہے اور جونئیر ججز کی نامزدگی سے تاثر ملتا ہے کہ کچھ لوگوں کو نظر انداز کرنا چاہتے ہیں۔احسن بھون نے کہا کہ ججز تقرری کوئی الیکشن کا عمل نہیں ہے، سپریم کورٹ کا کل کا فیصلہ حقائق اور قانون کے برخلاف تصور ہوگا کیونکہ آٹھ ججز کی رائے کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا تھا۔احسن بھون نے کہا کہ آئین سے متصادم فیصلوں کا آئندہ دنوں میں اثر نظر آئے گا، عمران خان اور چوہدری شجاعت حسین کے ممبران کی ووٹنگ کیلئے لکھے گئے خطوط بلکل ایک جیسے ہیں۔قبل ازیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان، تمام صوبوں کی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنز، پاکستان بار کونسل، صوبائی بار کونسلز، پاکستان جوڈیشل کمیشن میں بار کونسلز کے اراکین کا اسلام آباد میں عدالت عظمیٰ کے احاطے میں اجلاس سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد احسن بھون اور پاکستان بار کونسل کے ایگزیکیوٹو چیئرمین محمد مسعود چشتی کی صدارت میں ہوا۔یہ اجلاس سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور چیئرمین ایگزیکٹو پاکستان بار کونسل نے عدالتی امور کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے حوالے سے عدلیہ کی آزادی کے تنازعات سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کرنے کے لیے منعقد کی تھی۔قرارداد میں لکھا گیا کہ ایوان نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ قانونی برادری کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے، وہ کسی کے خلاف ہیں اور نہ ہی حق میں، بلکہ قانون کی حکمرانی اور سینارٹی کے اصول کی سختی سے پابندی چاہتے ہیں جس طرح جونیئر ججوں کی تقرری کیلئے سنیارٹی اصول کی خلاف ورزی کرنے پر سپریم کورٹ کو برہمی کا سامنا کرنا پڑا جس جس کو ایوان نے اسے مسترد کر دیا ہے۔اس کے علاوہ ایوان نے تقریباً ایک دہائی کے اپنے دیرینہ مطالبے کا بھی اعادہ کیا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان فوری طور پر اپنے رولز میں ترمیم کرے تاکہ عدالتی تقرریوں کیلئے نامزدگی صرف چیف جسٹس کے بجائے جوڈیشل کمیشن کے کسی بھی رکن کی طرف سے شروع کی جا سکے اور اس کے علاوہ منصفانہ، شفاف اور معروضی معیار اور طریقہ کار واضح کرے تاکہ متوقع تقرریوں کی مناسبیت کا اندازہ لگایا جا سکے۔

اہم خبریں سے مزید