• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

٭ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ’’کپتان حکومت‘‘ کے ایک سابق وفاقی وزیر کے اسٹیبلشمنٹ سے ’’درپردہ رابطوں‘‘ کے حوالے سے کئی چہ میگوئیاں سننے میں آ رہی ہیں۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ سابق وفاقی وزیر کا تعلق کے پی کے سے ہے اور وہ صوبے میں وزیر اعلیٰ کے کلیدی عہدے پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ 

کپتان نے پنجاب میں ضمنی انتخابات کے نتائج کےبعد پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس بنی گالہ میں بلایا تھا۔ اس کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ اجلاس میں شریک بیشتر پارٹی رہنماؤں نے ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ سے دوبارہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی اہمیت کو زور دار انداز میں بیان کیا تھا۔ اس اہم خصوصی ٹاسک کی ذمہ داری نحیف و نزار جسم رکھنے والے سابق وفاقی وزیر دفاع کو دی گئی ہے۔ مذکورہ سابق وفاقی وزیر پارٹی کے اقتدار سے نکلنے سے لے کر اب تک ’’مقتدرحلقوں‘‘ سے مسلسل رابطوں میں ہیں؟

عدالتی اور انتخابی اصلاحات کے لئے کمیٹی قائم؟

٭ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی و سرکاری حلقوں میں پی ڈی ایم کی طرف سے عدالتی اصلاحات اور انتخابی اصلاحات کو جلد سے جلد کرنے کے حوالہ سے حکومت پر زور دیا جارہا ہے۔ پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت نے وزیراعظم کو اس سلسلہ میں متعلقہ اداروں اور ان سے منسلک اعلیٰ بیورو کریٹوں کو بھی خصوصی ہدایات جاری کرنے کے بارے میں احکامات دینے کے فیصلہ سے بھی آگاہ کردیا ہے۔ وزارت قانون نے اس بارے میں قانونی مہارت رکھنے والے افسران کو ’’ہوم ورک‘‘ مکمل کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ 

یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سپریم کورٹ بار کے علاوہ پاکستان بار کونسل کے عہدیداروں سے بھی مشاورت کی جا رہی ہے۔ ایک سابق اٹارنی جنرل کوبھی ان اصلاحات کے معاملہ میں تیار کئے جانے والے مسودہ کو حتمی شکل دینے کی ذمہ داری سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم کے آنے والے اجلاسوں میں ایک ’’خصوصی کمیٹی‘‘ ان معاملات کوحتمی منظوری دے گی؟

پنجاب میں کپتان کا جارحانہ رویہ؟

صوبائی دارالحکومت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں ’’کپتان‘‘ کے حالیہ دورہ کے بعد پی ٹی آئی کے دو جارحانہ انداز رکھنے والے رہنمائوں کو ’’سیاسی مشیر‘‘ بنانے کے حوالہ سے خبریں گردش کر رہی ہیں۔ ایک سابق وفاقی وزیر کو ’’قانونی محاذ‘‘ پر جوہر دکھانے کے لئے ’’پورٹ فولیو‘‘ دیا جا رہا ہے جبکہ ’’کپتان‘‘ کے چیف آف سٹاف کو بھی ’’ترجمان‘‘ کے طور پر صوبے میں ایک عہدہ دینے کی سفارش کر دی گئی ہے۔ 

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے نیب کے ایک سابق افسر کو بھی مشیر بنانے کے حوالہ سے یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ وہ سیاسی مخالفین کے لئے ’’اینٹی کرپشن‘‘ کے محکمہ کی بھی براہ راست نگرانی کریں گے اور نیب کے نئے چیئرمین کے خلاف بھی محاذآرائی کا آغاز کرنے کی ذمہ داری نبھائیں گے۔ کہنا ہے کہ کپتان نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس ’’جارحانہ رویے‘‘ کے لئے راضی کرلیا ہے؟

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید