لندن (مرتضیٰ علی شاہ) نواز شریف کی امیگریشن اپیل پر ایک سال سے سماعت نہیں ہوئی، جعلی خبر میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانوی حکومت نے نواز شریف کو 25 ستمبر 2022 تک ملک چھوڑنے کا کہہ دیا جبکہ برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی امیگریشن اپیل کو ابھی سماعتوں اور اپیلوں کے کئی مراحل سے گزرنا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کی برطانیہ کے امیگریشن ٹریبونل میں ایک سال سے زائد عرصے سے اپیل کی سماعت نہیں ہو سکی ہے کیونکہ سابق وزیر اعظم کے قیام میں توسیع کی درخواست کو برطانیہ کے ہوم آفس نے مسترد کر دیا تھا۔
برطانوی حکومت کے معتبر ذرائع نے دی نیوز اور جیو کو بتایا کہ شریف کی اپیل ابھی تک فرسٹ ٹائر ٹریبونل میں کئی عوامل کی وجہ سے نہیں سنی گئی جس میں ہوم آفس کی جانب سے شریف کے وکلاء کی طرف سے کی گئی نمائندگی کے جواب میں اپنا پلندہ فائل کرنے کے لیے وقت میں توسیع کی درخواست کی گئی تھی۔
پچھلے سال اگست میں ہوم آفس نے نواز شریف کی اسٹے کی درخواست مسترد کر دی تھی لیکن انہیں ہوم آفس کے فیصلے کے خلاف اندرون ملک اپیل کا حق دیا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شریف کو اس وقت تک برطانیہ چھوڑنے کی ضرورت نہیں جب تک کہ وہ برطانیہ میں اپیل کے اپنے تمام حقوق پورے نہیں کرلیتے۔ جس کے فوراً بعد نواز شریف کے وکلاء نے گزشتہ سال اگست میں اپیل دائر کی تھی، مذکورہ اپیل اب بھی فرسٹ ٹائر ٹریبونل (ایف ٹی ٹی) میں زیر التوا ہے اور ایف ٹی ٹی جج کے سامنے سماعت کی منتظر ہے۔
پاکستانی سوشل میڈیا سرکٹ پر منگل 16اگست 2022کو ایک خبر گردش کر رہی تھی کہ برطانیہ کی حکومت نے نواز شریف کو 25 ستمبر 2022 تک ملک چھوڑنے کا کہا ہے لیکن برطانیہ کے سرکاری ذرائع نے کہا ہے کہ یہ جعلی خبر ہے کیونکہ حتمی فیصلہ آنے سے پہلے نواز شریف کی اپیل کو کئی مراحل سے گزرنا ہے۔
برطانیہ کے سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد نواز شریف کی اپیل کی ابھی تک فرسٹ ٹریبونل نے کیس کے میرٹ پر سماعت نہیں کی۔ اس سال 18 فروری کو ایک کیس مینجمنٹ کی سماعت فرسٹ ٹائر ٹریبونل میں ہوئی جہاں نواز شریف کی نمائندگی ان کے وکلاء نے کی۔
نواز شریف کو کیس مینجمنٹ کی سماعت میں شرکت کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور اسی جگہ تمام فریقین کے لیے کیس کی پیشرفت کے لیے اپنا پلندہ فائل کرنے کے لیے ایک ٹائم شیڈول پر اتفاق کیا گیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ جلد ہی سماعت ہونے والی ہے۔ بیرسٹر غلام مصطفیٰ، جو لندن میں قائم ایک قانونی فرم لاء لین سالیسٹرز میں امیگریشن کے سینئر وکیل اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں، نے پورے عمل کی وضاحت کی اور کہا کہ نواز شریف کی اپیل کے عمل کو بہت طویل سفر طے کرنا ہے کیونکہ یہ اپیل کا پہلا مرحلہ ہے اور اگر اس مرحلے پر نواز شریف کی اپیل کی اجازت نہیں دی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ یہ برطانیہ میں ان کے اپیل کے حقوق کا خاتمہ ہے۔
غلام مصطفیٰ نے مزید کہا کہ ایک بار فرسٹ ٹائر ٹریبونل کیس کی سماعت کرلے تو جج اپنا فیصلہ عام طور پر چند ہفتوں میں سنادے گا اور شاذ و نادر صورتوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ معزز جج صاحبان نے اصل سماعت کی تاریخ سے چند ماہ بعد فیصلے جاری کیے۔