کرن ریاض
(گولڈ میڈلسٹ ،اسسٹنٹ پروفیسر، راجن پور )
پہلی بار میں نے والد کے منہ سے یہ جملے سنے ہیں۔
٭…کل شام تک پتہ چل جائے گا کیا ہونا ہے۔
٭…پانی بہت تیزی سے قریب آرہا ہے ۔
٭…کپڑے اور ضروری کا غذات پیک کر لیے ہیں، باقی سامان صبح باندھیں گے۔
٭…فصل پوری طرح تیار ہے، مگر آج یا کل رات شاید !
٭…ہم سامان سے بھرا گھر چھوڑ کر کیسے جائیں گے دو دن میں تالے توڑ کر لوگ سب لے جائیں گے۔
٭…پچاس سال میں ہماری پوری زندگی میں ایسا کبھی نہیں ہوا ۔
میں یہ نہیں کہوں گی کہ آپ ہمارا دکھ نہیں سمجھ سکتے یقیناً آپ کے دل ہمارے لیے دھڑک رہے ہیں، مگر سننے، دیکھنے اور سہنے میں فرق صرف اتنا ہے کہ دیکھا جا سکتا ہے، سنا جا سکتا ہے، سہا نہیں جاسکتا ہے۔ آپ کہیں گے گھر چھوڑ کر چلے جائیں جان بچائیں ہم بھی یہی کہا کرتے تھے، مگر آج کیفیت مختلف ہے۔ ویڈیو کالز پہ ماں کو سامان باندھے دیکھے کا کرب میں لفظوں میں بیان کردوں گی، مگر سمجھ نہیں پائیں گے۔
مجھے صرف ایک بات ستا رہی ہے۔ دینے والے ہاتھوں سے لینا پڑ اتو ٹوٹ جائیں گے۔ اپنے گھروں میں پناہ دینے والوں کو کہیں پناہ لینی پڑی تو مر جائیں گے۔