• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بجلی کے بلوں نے عوام کی چیخیں نکال دیں

وطنِ عزیز میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے عذاب میں مبتلا اکثریت بے بسی اور بے کسی کے ہیجان میں مبتلا دکھائی دے رہی ہے اور اس تڑپتے ہوئے ماحول میں سیاسی صورتحال بھی ہچکولے کھاتے ہوئے طوفان میں گھرے ہوئے منظر کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی سیاست کے زاویے میں عدم برداشت، نفرت اور تقسیم در تقسیم کا عمل بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر اقتدار کے ایوانوں میں ’’بوسیدہ نظام ‘‘ کی کمزوریوں کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں تو اپوزیشن کا مرکزی کردار بھی دو صوبوں کی حکومت رکھنے کے باوجود مزید اقتدار کی ہوس میں ’’ جارحانہ طرز عمل‘‘ کا مظاہرہ کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

سیاسی جماعتوں اور سیاسی راہنمائوں کی حالت یہ ہے کہ ووہ قومی ذمہ داریوں سے اجتناب کر رہے ہیں۔ شعبدہ بازی اور شعلہ بیانی کے ذریعے سبز باغ دکھانے پر توجہ دی جا رہی ہے اور عوام نے بھی ملکی سیاست کو تفریح کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔ خدمت خلق کا جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے اور عوامی خدمت کے ا حساس کی جگہ جھوٹے دعوئوں اور جعلی وعدوں سے کام چلانے کو معیار بنا لیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آ رہی ہیں۔’’فیک نیوز‘‘ کے ذریعے ’’سیاسی پیچیدگیوں‘‘کے معاملات کو ہوا دینے کی روش نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا اعتبار اور اعتماد روز بروز زبوں حالی کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ 

سیاسی اقدار کے حوالہ سے بھی یاس اور ناامیدی کی فضاء محسوس کی جا رہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ ایک طرف وفاقی حکومت اور وزیراعظم سیلاب زدگان کو بحال کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں تو دوسری طرف جلسوں کی سیاست اور جارحانہ رویے کے دھمکی آمیز خطابات نے قوم کو طرح طرح کے سوالات اور مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے نے گو ڈوبتی ہوئی معیشت کو ایک بڑے طوفان سے نکالا ہے لیکن اس گراں قدر معاہدے کے اثرات سے اٹھنے والی مہنگائی کی موت سے لبریز لہروں نے بیچاری عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے تسلسل اور بڑھتی ہوئی گرانی کے طوفان نے وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور اتحادی حکومت کے راہنمائوں کو ایک کڑے امتحان کی آزمائش میں ڈال رکھا ہے ۔حکومت کے لئے المناک بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی وجہ سے کئے جانے والے سخت فیصلوں سے اقتصادی اعشاریوں میں بہتری آنے کے باوجود عوام حکومت سےمسلسل نالاں دکھائی دے رہے ہیں ۔ عالمی سطح پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں نے بھی مالیاتی اداروں کے علاوہ معیشت دانوں کو بھی ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔

عالمی منڈی میں بڑھتے ہوئے مہنگائی کے رجحان کے جاری رہنے سے سب سے زیادہ متاثر پاکستان کے عوام ہی ہونگے اور اس کا نقصان اتحادی جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کو زیادہ ہو گا ۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو نہ صرف اپوزیشن کے تابڑ توڑ حملوں کا سامنا ہے بلکہ ان کو اپنی پارٹی کے بعض راہنمائوں کی طرف سے بھی تنقید کے نشتر برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ ناراض پارٹی راہنمائوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں اور قیمتوں کو بڑھانے کے اعلانات نے پارٹی کی مقبولیت کو آسمان سے زمین پر لاکھڑا کیا ہے اور ضمنی انتخابات کے حلقوں میں بجلی کے بلوں میں آنے والے ٹیکسوں کی بھرمار نے عوام پر بجلیاں گرا دی ہیں۔

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے تین سو یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین کے لئے آسودگی اور سہولتیں دینے کے احکامات جاری کرکے اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن ناقابل برداشت بلوں کی بھاری رقوم نے پھر بھی عوام کی چیخیں نکال کر رکھ دی ہیں ۔ وفاقی دارالحکومت میں یہ بات زبانِ زد عام ہے کہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف سیاست کی بجائے اپنی تمام تر توجہ سیلاب میں ڈوبے ہوئے عوام کی بحالی کی طرف مرکوز کئے ہوئے ہیں اور وہ حقیقی عوامی خدمت کے جذبے کی خاطر ہر طرح کے الزامات کی سیاست کا جواب دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ 

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ انہوں نے اتحادی قیادت کی مشاورت سے عوام کے لئے جلد سے جلد ایک بڑے ’’ریلیف پیکیج‘‘ کے بارے میں منصوبہ بندی کی ہے اور وہ اس سلسلہ میں اپنی معاشی ٹیم کےذریعے خدوخال کو منظم انداز میں مرتب کر رہے ہیں۔ مریم نواز بھی پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کی ہدایات پر سیلاب زدہ علاقوں میں دورے کر رہی ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں حمزہ شہباز شریف بھی لندن سے وطن واپس آتے ہی سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے بارے میں عملی اقدامات کے حوالہ سے خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ وہ لندن بہ امر مجبوری اپنی اکلوتی معصوم بیٹی کے دل میں سوراخ کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے گئے تھے۔

صوبائی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور تحریک انصاف کی قیادت کے درمیان کئی اعلیٰ عہدوں کی تعیناتیوں کے معاملہ میں اختلافات کی کہانیاں ہر طرف گردش کر رہی ہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب بھی بیشتر سرکاری افسران کی تقرریوں کے معاملہ میں سی ایم سیکرٹریٹ کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب کے فرزند ارجمند مونس الٰہی تو کپتان عمران خان کی محبت کے سحر میں اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ وہ انہیں واشگاف طور پر ’’پرائم منسٹر‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ 

گجرات کو ڈویژن کا درجہ دینے والے جلسے میں تو خطاب کے دوران ہی عمران خان سے منظوری حاصل کرنے کا ا علان بھی انہوں نے ہی کیا ہے۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی تک اس نئے ڈویژن کے بارے میں تحریک انصاف سیالکوٹ کے راہنما اور حافظ آباد کے پی ٹی آئی راہنما بھی ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں حمزہ شہباز شریف کی وطن واپسی کے بعد اور پارٹی راہنمائوں پر بننے والی مقدمات میں ضمانتیں حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے دوبارہ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے ۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید