کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام” آپس کی بات “میں میزبان منیب فاروق سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما ن لیگ ،ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ جتنے با اختیار وزیراعظم عمران خان تھے اتنے با اختیار وزیراعظم شہبا زشریف ہیں رہنما پیپلز پارٹی ،سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ عمران خان بنیادی فرق نہیں سمجھ رہے کہ بنی گالہ کے چیف آف اسٹاف اور چیف آف آرمی اسٹاف میں زمین اور آسمان کا فرق ہے، سینئر تجزیہ کار، اطہر کاظمی نے کہا کہ جہاں تک اداروں کا تعلق ہے تو یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ سیاست کے اندر ہم اداروں کو گھسیٹتے ہیں۔ رہنما ن لیگ ،ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ حکومت نے عمران خان کے بیان پر کیا کان دھرنے تھے اس میں نہ وزن ہے نہ اس بیان میں کوئی سر ہے نہ پیر ہے کہ اس پر کان دھرے جائیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنے کل کے بیان کے اوپر تو خود عمران خان نے بھی کان نہیں دھرے۔کل انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن ہونی چاہئے اور موجودہ حکومت معتبر نہیں ہے اسے نئے آرمی چیف کی تقرری نہیں کرنی چاہئے تو میں اس حق میں ہوں کہ اگلے الیکشن تک موجودہ آرمی چیف کو توسیع دینا چاہئے اور اس کی وجہ بھی ساتھ بیان کردی کہ ہم موجودہ حکومت پرعدم اعتماد کرتے ہیں۔آج انہوں نے اپنے بیان پر یو ٹرن لے لیا کہ میں نے تو ایسی بات نہیں کی کل ان کے لوگ ان کے اس بیان کا دفاع کررہے تھے آج ان کے اس یو ٹرن کا دفاع کرتے پھر رہے ہیں۔یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کئی دفعہ ہوچکا ہے لہٰذا ان کی باتوں کو نہ ہم سنجیدہ لیتے ہیں نہ سنجیدہ لوگ سنجیدہ لیتے ہیں۔سنجیدہ لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ جو گفتگو ہے بغیر کسی سر پیر کے ہے۔ ابھی بھی جو اداروں کو متنازع بنانے کے بیانات ہیں یہ تسلسل ہے ۔جتنے با اختیار وزیراعظم عمران خان تھے اتنے با اختیار وزیراعظم شہبا زشریف ہیں ۔ رہنما پیپلز پارٹی ،سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ عمران خان بنیادی فرق نہیں سمجھ رہے کہ بنی گالہ کے چیف آف اسٹاف اور چیف آف آرمی اسٹاف میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ عمران خان اس وقت جو باتیں کررہے ہیں وہ باتیں صرف ان کی پارٹی کے لوگوں کے کانوں میں شیرہ نہیں گھول رہیں ان تمام لوگوں کے کانوں میں شیرہ گھول رہی ہیں جو آپ کے اس ادارے کے خلاف بیرون ملک سے سازشیں کرتے ہیں۔آپ انہیں مواد دے رہے ہیں کہ وہ بھی اسی قسم کی باتیں کریں ۔ سینئر تجزیہ کار، اطہر کاظمی نے کہا کہ جہاں تک اداروں کا تعلق ہے تو یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ سیاست کے اندر ہم اداروں کو گھسیٹتے ہیں ۔ پاکستان آرمی کا سپاہی سے لے کر جنرل تک ہر کوئی تگڑا ہے اور ان ہی کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ ہم آزادی سے تنقید بھی کررہے ہیں اور ہمیں کسی چیز کا خوف نہیں ہے کیوں کہ ہماری سرحدیں اس وقت محفوظ ہیں۔ جب یہ کہتے ہیں کہ آرمی کے اندر کوئی بھی ہو کوئی بھی آجائے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر ان کو کیا مسئلہ تھا۔ یہ کیوں کہتے تھے کہ عمران خان نے اپنی مرضی سے تعیناتی کرنی ہے یہ لوگ سیاست میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں مگر اداروں کو سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ ن لیگ کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے شہیدوں کا بہت بڑا درجہ ہے، ملک کیلئے قربانی دینے والے اداروں کو متنازع بنانا قابل مذمت ہے، حکومت جسے بھی آرمی چیف مقرر کرے گی عمران خان پہلے ہی اسے متنازع بنارہے ہیں، عمران خان ایسا آرمی چیف لگانا چاہتے ہیں جو ان کی کرپشن کو بچائے، چوری یا کرپشن کے پیسے پکڑنا آرمی چیف کا مینڈیٹ نہیں ہے، اگر یہ مینڈیٹ ہے تو اسے صرف ن لیگ کے لوگوں کے کرپشن کے پیسے نہیں پکڑنے بلکہ فرح گوگی، احسن گجر اور عامر کیانی کے بھی پکڑنے ہیں، ان کے تانے بنی گالہ سے جڑے تو وہاں کے لوگوں سے بھی پوچھنا ہوگا۔ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کا کہنا تھا کہ عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی ہونے سے پہلے اسے متنازع بنارہے ہیں، کابینہ میں آٹھ نئے معاونین خصوصی شامل کرنے سے قومی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا، معاونین خصوصی کو نہ تنخواہ ملتی ہے نہ دیگر سہولتیں دی جاتی ہیں، وزیراعظم نے تمام نئے معاونین خصوصی پیپلز پارٹی کے بنائے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی رہنما پلوشہ خان نے کہا کہ عمران خان آنے والے آرمی چیف کو پہلے ہی متنازع بنارہے ہیں، عمران خان شاید کسی شخصیت سے خائف ہیں جس کیلئے آنے کے راستے مشکل کرنا چاہ رہے ہیں، عمران خان چاہتے ہیں نئے آرمی چیف کا تقرر زیربحث رہے اسی لیے ایسی باتیں کررہے ہیں، وزیراعظم کے نئے معاونین خصوصی کا فیصلہ پہلے کرلیا گیا تھا سیلاب کی وجہ سے اعلان میں تاخیر ہوئی، یہ سیاسی تقرریاں ہیں ان کا ملکی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں آئے گا۔