میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر : اسرائیل انصاری
نوے فیصد متاثرہ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی امداد کی ہے، بین الاقوامی تنظیموں نےبڑے بڑے اعلانات کیے لیکن وہ اس طرح اب تک مدد نہیں کرسکی ہیں۔ایدھی ٹرسٹ سمیت تمام ادارے دس سے پندرہ فیصد متاثرہ عوام تک ہی مدد کے لیے پہنچے ہیں۔اگر تین کروڑ لوگ بھی متاثرہ ہیں تو اس کا دس فیصد تیس لاکھ ہے ،یہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ میں آپ کے سامنے یہ کہہ سکتا ہوںکہ ہم نے 50لاکھ لوگوں کی مدد کی،تو یہ مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں،ایسا کہنے والے صرف اپنے ڈونرز کومطمئن کررہے ہیں، این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم کو فعال رکھنے کے لیے روز انہ کی سرگرمیوں میں آنا چاہیے۔یہ ادارے ریسکیو خدمات ایمبولینس یادیگر ایمرجنسی صورت حال میں شامل ہوں اوراپنا کام روز کی بنیادپر کریں
فیصل ایدھی (سربراہ، ایدھی فاؤنڈیشن)
جب تک عالمی برادری امریکا یورپی یونین اور دیگر ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے ہم حالات سے نہیں نمٹ سکتے،سب سے اہم بات آئی ایم ایف کے قرضے ری شیڈول اگر نہیں کرتے ،آپ موخر کریں، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کرسکتے ہیں۔ہیٹی میں جب زلزلہ آیا تھا تو آئی ایم ایف نے قسط موخرکی تھی۔بعض ملکوں کے قرضے معاف کئے گئے ہیں۔اگر ایسا ہو تو ہم ان اقساط کو اپنی تعمیرنو پر خرچ کرسکتے ہیں۔ بصورت دیگر موجودہ سیلاب ریاست کا بہت بڑا امتحان ہے۔ ہمار ا طبقہ اشرافیہ بہت بدعنوان ہے،وہ علامتی تعاون بھی کرتے نظر نہیں آرہے۔آج پاکستان کو ہر چوتھا یا پانچواں شہری پانی میں ہے،جب کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ میں تحریک چلاوں گا یہ سفاک رویہ ہے
ناصر منصور (جنرل سیکرٹری، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، پاکستان)
ادارے یا یونیورسٹی ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے کوئی پروپوزل تیار کرتی ہے ۔تو جب آفت گزرے کچھ ماہ گزریں گے ،تو سب دوبارہ بھول جائیں گے۔اور سارے پروپوزل سردخانے یا سرخ فیتے کی نظر ہوجائیں گے۔ دنیا بھر کا میڈیا بتا رہاکہ کہ سیلاب نے پاکستان کو تباہ کردیا ہے اپنی قوم کے ہر عمر کے لوگوں سے اپیل کروں گا کہ خدارا سیلاب متاثرین کو تکلیف کو اپنے پر رکھ کر سوچیں۔ ہمیں امداد بانٹنے میں مدد صرف فوج رینجرزاور پولیس نے کی،لیکن امدادی کام بڑی معیاری این جی اوز کے ذریعے اگر کیا جائے گا۔تو وہ زیادہ بہتر رہے گا
خالد امین( چانسلر، انڈس یونی ورسٹی، کراچی)
پاکستان کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوبا ہے ،جس میں خیبرپختون خوا، جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان شامل ہیں،اندرون سندھ سمندر سا منظر ہے سیکڑوں میلوں تک صرف پانی کھڑا ہے، عوام کی بڑی آبادی کی زندگی مشکل میں ہے ۔ سیلاب کی تباہی سے دنیا بھر کی توجہ بھی پاکستان کی طرف ہوئی ہے۔سیلاب متاثرہ علاقوں لوگوں میں خوراک ،صحت ،رہائش اور ان کی معیشت بنیادی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ان مسائل سے متاثرین پر کیا بیت رہی ہے، حکومت کیا کررہی ہے عالمی برادری جو امداد دے رہی ہے اسے متاثرین میں تقسیم کرنے کا طریقہ کار کیاہے،اس کی ترجیحات کیا ہیں ۔کتنا نقصان ہوچکا ہے اور اس سے کیسے نمٹا جائے گا۔
انڈس یونی ورسٹی میں "سیلاب بلا میرے آگے" کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کی رپورٹ
یہ پانی کتنے عرصے تک اترے گا،آگے سردیاں آنےوالی ہیں اگر حالات یہ ہی رہے تو متاثرین کا کیا ہوگا۔ حکومت کا تعمیر نو کے لیے منصوبے اور منصوبہ بندی کیا ہے۔ ان حالات میں این جی اوز کاکیا کرداررہا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی اور معتبراین جی اوایدھی ٹرسٹ کئی برسو ں سے ہر دکھ کی گھڑی میں پاکستانیوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ان کی بڑی خدمات ہیں یہ سیلاب متاثرین کے لیے کیا کررہے ہیں،اور ان کی مزید تجاویز کیا ہیں۔ تمام حالات پر گفتگو کے لیے ایدھی ٹرسٹ کے سربراہ فیصل ایدھی،ناصر منصور اور خالد امین کو مدعوکیا ہے۔جنگ فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
جنگ:فیصل اید ھی ابھی سیلاب آنے کے بعد کیا حالات ہیں۔
فیصل ایدھی:آج بارش کو ختم ہوئےمہینہ ہونے کو ہے لیکن ان زمینوں سے پانی ابھی تک نہیں نکلا۔دریا کے قدرتی راستے جسے ہم برساتی نالہ کہتے ہیں اس کے راستے پر قبضے ہیں ،طرح طرح کی تجاوزات قائم ہیں کچھ پر تو کاشت کاری بھی ہورہی ہے۔ پانی نکالنے کے یہ راستے بند ہوچکے ہیں ۔پانی نکالنے کے غیر قدرتی صرف دوراستے ہیں مین نارا ویلی ڈرین (ایم این وی ڈی) اور رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) سندھ میں سیم نالے ہیں ۔ ان کا سائز اتنا بڑا نہیں کہیں دس سے پندرہ فٹ اور کہیں نیچے جاکر تیس سے پچاس فٹ ہوجاتا ہے۔
تو اس طرح آپ دس اضلاع کا پانی ایک نہر سےاور دوسرے دس اضلاع کا پانی دوسری نہر سے نہیں نکال سکتے۔اور وہ بھی مصنوعی طریقے سے،ا ن نالوں کی ٹوٹل پانی خارج کرنے کی استعداد چار ہزار کیوسک ہے،لیکن ان بارشوں میں وہ ایک وقت اٹھارہ ہزار سے انیس ہزار کیوسک نکال رہی تھی،نواب شاہ میں (آر بی او ڈی) کا جو علاقہ تھا،وہاں لوگوں نے اپنی فصل گھرزمینوں کو بچانے کے لیے بند کو اونچا کردیا ہے۔تو سیم نالہ اس وقت زمینوں سے تین چار فٹ اونچاچل رہا ہےاور زمینوں کا پانی دوفٹ نیچےہے تو اگر یہ بند ٹوٹے گا تویہ پانی مزید علاقوں میں پھیلےگا۔
جنگ: لوگوں کی تعداد اور وہ کس حال میں ہیں۔
فیصل ایدھی:لوگ کھلے آسمان کے نیچے بند پر بیٹھے ہیں،کے پی کے سیلاب سے متاثر ہوا لیکن سندھ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں برسات سے تیس فیصد فصلیں تباہ ہوئیں ہیں تباہ فصلوں میں زیادہ کپاس ہے، 70فیصدفصلیں محفوظ ہیں انہیںجزوی نقصان پہنچا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں جہاں زمین دار خوش حال ہیں ان کے گھر پکے ہیں وہ محفوظ رہے لیکن ان زمینوں پر کام کرنے والا ہاری جن کی تعداد بہت زیادہ ہے اس کے گھر مٹی سے بنے کچے ہوتے ہی وہ سب بہہ گئے ہیں۔
یہاں 80 سے 90فیصد گھر گرچکے ہیں جس میں یہاں کی 60فیصد آبادی رہتی تھی۔ ایک سے ڈیڑھ کروڑ لوگ بے گھرہوچکے ہیں ،بیماریوں کی تو بہت بری خبریںآرہی ہیں ، گھروں میں اکثریت ملیریا کاشکار ہورہی ہےبچے زیادہ تعداد میں بیمار ہیں۔ ملیریا وبا ئی شکل اختیار کیا ہوا ہےگھروں سے کئ اموات کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ اموات ڈینگی، ڈائیریا اور ملیریا کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ جلدی امراض بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
جنگ:متاثرہ لوگوں کی حکومت ، این جی اوزیا پرائیوٹ سیکٹر کیسے اور کس حد تک مدد کرچکے ہیں۔
فیصل ایدھی: نوے فیصد متاثرہ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی امداد کی ہے، بین الاقوامی تنظیموں نےبڑے بڑے اعلانات کیے لیکن وہ اس طرح اب تک مدد نہیں کرسکی ہیں۔ ایدھی ٹرسٹ سمیت تمام ادارے دس سے پندرہ فیصد متاثرہ عوام تک ہی مدد کے لیے پہنچے ہیں۔ اگر تین کروڑ لوگ بھی متاثرہ ہیں تو اس کا دس فیصد تیس لاکھ ہے ،یہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔میں آپ کے سامنے یہ کہہ سکتا ہوںکہ ہم نے 50لاکھ لوگوں کی مدد کی،تو یہ مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں،ایسا کہنے والے صرف اپنے ڈونرز کومطمئن کررہے ہیں۔
جنگ :حکومت ،اداروں یا این جی اوز کی امداد کیا تھی متاثرین کو اب تک کیا فراہم کیا گیا ہے۔
فیصل ایدھی:زیادہ تر پکاکھانا فراہم کیا گیا ہے۔اس کے معیار سے ہم خود مطمئن نہیں لیکن زندہ رہنے کےلیے بہتر تھا۔زیادہ تر کھانا فراہم کرنے والے ان ہی علاقوں سے تعلق رکھنے والےوہ خوش حال افراد ہیں جن کےگھر زمینیں سیلاب سے بچ گئے ۔یہ ہی افراد کھانا اپنے علاقے کی عوام کو دے رہے ہیں۔اس موقع پر عوام بھی ان سماجی کام میں شامل ہوئے ہیں۔ حکومت بتارہی ہے 1300 یا 1400افراد جاں بحق ہوئے ۔جب کہ اموات کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے جو روزانہ کی بنیاد پرتیزی سے بڑھ رہی ہے۔
جنگ : موسم سرما کے کیا چیلنجز ہیں۔
فیصل ایدھی:صحت بڑا چیلنج بن کر سامنے آرہا ہے، خدشہ ہے کہ اموات کی تعداد ہزاروں میں ہوگی۔نارمل بخار کی دوائیاں دستیاب نہیں، ہم ان کی قلت دیکھ رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی کرکے مارکیٹ میں یہ دوائیں چھ گنا زائد قیمت پر بیچی جارہی ہیں۔ مفاد پرست اس موقع کو بھی کاروباری فائدے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔
جنگ:بیماری متاثرہ علاقوں میں سنگین مسئلہ ہے تو آپ اور دیگر این جی اوز اپنی توجہ علاج معالج کی طرف کیوںنہیں کررہے۔
فیصل ایدھی:ہم اور دیگر اس پر بھی کام کررہے ہیں لیکن ہمارے اتنے مالی وسائل نہیں جو وبائی حالات سے نمٹ سکیں۔ پاکستان میں ویسے ہی بہت زیادہ معاشی بدحالی ہے۔ لہٰذا سب مل کر 10سے پندرہ فیصد آبادی کی ہی مدد کرپائیں گے۔ متاثرین بحالی کے موقع پر بھی ہم بہت زیادہ نہیں کرسکتے۔آج اگر بین الاقوامی این جی اوز موجود ہوتی تو تین سے چارگنا زیادہ کام ہوجاتا۔
بین الاقوامی این جی اوز تین چار سال پہلے پاکستان چھوڑ چکی ہیں،انہیں یہاں مختلف طریقوں سے بہت تنگ کیا جارہا تھا،ان این جی اوز کے اکثر سربراہ غیرملکی یورپین تھے۔ انہیں اپنے فنڈ کے لیےمشکلات کا سامنا تھا۔ نواب شاہ میں ایک این جی اوکام کررہی تھی اس کے پیسے روک لیے گئے ،ملائیشیا کی این جی او آنا چارہی تھی اسے بڑی مشکل سے بیس دن بعد ویزا جاری کیا گیا۔ ہم نے خط لکھ کر بتایا کہ یہ اچھے لوگ ہیں ہماری مدد کریں گے تب بھی تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔ ویزے جاری کرنے میں ایجنسیوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
جنگ:ریسکیو پر وفاقی اورسندھ کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کیسی ہے وہ ایسی صورت حال میں کس حد تک تیار نظر آئے۔
فیصل ایدھی:حیران کن طور پرمجھے این ڈی ایم اے اور پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ PDM)) کم نظر آئی،میں سمجھتا ہوں این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم کو فعال رکھنے کے لیے روز انہ کی سرگرمیوں میں آنا چاہیے۔یہ ادارے ریسکیو خدمات ایمبولینس یادیگر ایمرجنسی صورت حال میں شامل ہوں اوراپنا کام روز کی بنیادپر کریں۔ جب ان کی مشینیں یا گاڑیاں پڑی اور کھڑی رہیں گی تو ہنگامی حالت کی صورت میںانہیں دوبارہ قابل استعمال کے لیے آٹھ دس دن چاہیے ہوتے ہیں لہذا جب اچانک آفت آتی ہے تو بجائے یہ مدد کو پہنچے یہ اس موقع پر اپنی مشینیں ٹھیک کرر ہے ہوتے ہیں اور جب ملک کے کسی بھی حصے میں ایسی آفت کا سامنا ہو تو شروع کے دن ضائع ہوجاتے ہیںِ۔
روزانہ کی بنیاد پر ریسکیوسروس میں رہیں گے تو ان کی گاڑیاں ٹرک مشینیں استعمال ہوں گی اور یہ ادارے ہمہ وقت تیار ملیں گے۔ہم این جی اوز مسلسل ایسے ہی مشن پر پورے سال مصروف رہتے ہیں اس لیے ہنگامی حالات میں سب سے پہلے کہیں بھی پہنچتے ہیں۔ ہم اپنی وہ ایمبولینس سروس جو اندرون صوبے یا بیرون صوبہ خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں ان سےپھر صرف ریسکیوجن میں فراہمی خوراک دوائی اور دیگر ایمرجنسی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جب بھی کوئی ناگہانی آفت آتی ہے فوری مدد کے لیے پہنچنے والی چند این جی او میں ایدھی ٹرسٹ آگے بڑھ کر سامنے ہوتی ہے۔اس کی وجہ صرف یہ کہ ہم پورے سال ان کاموں میں مصروف رہتے ہیں ۔
جنگ:ناصر منصور آپ سندھ اور بلوچستان کی امدادی مشن میں مصروف ہیں،تو آپ ان علاقوں کی متاثرین سیلاب بحالی کے لیے کیا نئے چیلنجز دیکھ رہے ہیں۔
ناصر منصور: ہم موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہوئے ہیں ۔اس کے ذمے دار وہ صنعتی ممالک ہیں جو سوسال سے فوسل فیول استعمال کررہے ہیں جس سے کاربن اور ماحول کی حدت میں اضافہ ہورہا ہےلیکن اس کے سب سے زیادہ متاثرہ ہم بن رہیں ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلی رکنے والی نہیں یہ صرف بڑھے گی۔ یہ سب کیا دھراترقی یافتہ ممالک کالیکن اس کے سنگین نتائج کا سب سے زیادہ سامنا ہمارا جیسا غریب ملک کو کرنا پڑرہا۔فوسل ایندھن قابوکرنے کے لیے ترقیاتی یافتہ ممالک کو 6ٹریلین ڈالر سالانہ سبسڈی دی جاتی ہے۔اسی طرح دنیا کےپانچ ٹریلین ڈالر فوجی اخراجات ہیں۔
ہم پاکستان کا جائزہ لیتے ہوئے موازنہ کریں تو ہمارے یہاں صحت، تعلیم، سوشل سیکٹر ،انفرااسٹرکچر کاکتنا بجٹ ہےاور غیرترقیاتی جس میں دفاعی خرچ بھی شامل ہے اس کا حجم کیا ہے ۔ ہم ایک بہت بڑ ی تباہی سے گزرہے ہیں، اب یہ ہرسال ہوگا،موسم میں شدت بڑھ رہی ہے، سردی زیاہ ہوگی،ہیٹ ویو زیادہ دیکھیں گے،ہمارے یہاں خزاں اور بہار کا موسم غائب ہوگیا ہے۔ ہمارے ساتھ بین الاقوامی مسئلہ بھی ہے۔ ان حالات سے نمٹنے کےلیے اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ وہ دو اعشاریہ چار بلین ڈالر پوری دنیا بھر کے لیے رکھ رہے ہیں۔
پاکستان میں اب تک 30بلین ڈالر تخمینے کا نقصان ہوچکا ہے۔میں سمجھتا ہوں جو بین الاقوامی سطح کا ایک بہت بڑا جرم ہورہا ہے۔جس میں پاکستان شامل نہیں لیکن اس ناکردہ جرم کی سزا سب سے زیادہ ہمیں مل رہی ہے۔پاکستانی صنعت میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ہماری 45فیصد کپاس کی فصل تباہ ہوچکی ہے میری اپٹما سے بات ہوئی ان کے مطابق آنے والے مالی سال کے لیے25لاکھ کپاس کی گانٹھیں دستیاب ہی نہیں۔تو ایک بہت بڑا بحران بے روزگاری کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ صرف ٹیکسٹائل اور گارمنٹس میں ایک ملین ورکرز اپنا روزگار کھودیں گے۔
بڑے بڑے برانڈ دھیرے دھیرے لوگوں کو فارغ کررہے ہیں۔ہم نے کوویڈ میں بھی ٹھیک سے صورت حال کو نہیں دیکھا۔دوہزار دس کا سیلاب اور ابھی آئی ایم ایف سے معاہدہ نے ہماری پوری معیشت کو سکیڑ کررکھ دیا ہےجب تک عالمی برادری امریکا یورپی یونین اور دیگر ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے ہم حالات سے نہیں نمٹ سکتے، سب سے اہم بات آئی ایم ایف کے قرضے ری شیڈول اگر نہیں کرتے آپ موخر کریں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کرسکتے ہیں۔ہیٹی میں جب زلزلہ آیا تھا تو آئی ایم ایف نے قسط موخرکی تھی۔بعض ملکوں کے قرضے معاف کئے گئے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو ہم ان اقساط کو اپنی تعمیرنو پر خرچ کرسکتے ہیں۔
بصورت دیگر موجودہ سیلاب ریاست کا بہت بڑا امتحان ہے۔ ہمار ا طبقہ اشرافیہ بہت بدعنوان ہے،وہ علامتی تعاون بھی کرتے نظر نہیں آرہے۔آج پاکستان کو ہر چوتھا یا پانچواں شہری پانی میں ہے،جب کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ میں تحریک چلاوں گا یہ سفاک رویہ ہے، قابل ذکر سیاسی جماعتیں بھی بحران میں نظر نہیں آرہیں۔ سندھ میں دیہی اور شہری تفریق کا ذکر بہت آتا ہے لیکن اس موقع پر جس طرح شہر سے لوگ نکلے اور وہاں پہنچے ہم نے کہیں دیہی اور شہری تفریق نہیں دیکھی ،نفرت پھیلانے والے ناکام نظرآئے۔کراچی کی ہرگلی ہر نکڑ پر امدادی کیمپ لگا ہوا ہے۔اور لوگ اپنی حیثیت کے مطابق مدد کر رہے ہیں۔ ہم نے ٹریڈ یونین کبھی بہت زیادہ پیسے جمع نہیں کیے۔لیکن اس مرتبہ ہم نے کئی گنا زیادہ پیسے جمع کرلیے ۔
جنگ:ٹیکنو کریٹ ،دانش ور ماہرین کے زیرنگرانی کیا پاکستان میں سرکاری اور نجی سطح پر ایسی اسٹڈی کی ضرورت ہےجس میں ہم ایسی منصوبہ بندی کریں جس میں سیلاب کی وجوہات نقصان کی وجوہات اور آئندہ حالات سے کیسے نمٹا جائے ۔ان کو کس طرح آباد کیا جائے ا ن کی رہائش ،ذرائع نقل و حمل وغیرہ کس نوعیت کے ہوں۔
ناصر منصور:این ڈی ایم اے ادارہ سویلین انتظامیہ کے ماتحت ہونا چاہیے،تاکہ اس سے پوچھا جاسکے۔این ڈی ایم اے کی سربراہی جنرل رینک کے حاضر فوجی افسر کررہے ہیں ،لہذا کوئی سوال نہیں کررہا کہ آخر اس موقع پر این ڈی ایم اے کہا ں ہے۔ ہم ابھی متاثرہ علاقوں سے آرہے ہیں ہم نے وہاںکئی فوجی ٹرک دیکھے لیکن اس میں ایدھی یا جےڈی سی کافراہم کردہ سامان تھا۔تو پھر سب سوچتے ہیں کہ آخر ریاست کہاں ہے وہ ذمہ داری کیوں نہیں اٹھارہی۔
این ڈی ایم اے ان ماہرین کے زیرنگرانی ہو جن کا تعلق موسمیات، سماجی خدمت کے نامور افراد جیسے فیصل ایدھی وغیرہ جو فوری ریسکیوکرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، یونیورسٹی میں سوشل سائنس سے وابستہ لوگوں کو شامل کیا جائے وہ بتائیں متاثرین کی بحالی کیسے ہو۔ ایک بڑا جواب دہی کا فورم تشکیل دیاجائے تب جاکر یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
موجودہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے میں ایسے حالات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ۔متاثرہ علاقوں کے 38 ملین لوگ اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ہیں یہ صرف پاکستانی حکومت کی حکومت کی ناکامی نہیں ریاست کے پورے اسٹرکچر کی ناکامی ہے۔پاکستان کو ویلفیئر اسٹیٹ کے طور پر نہیں چلایا گیا، اتنی بڑی آفت ہے اور ہم بھارت کے ساتھ سرحدیں نہیں کھول رہے۔ہم ایران سے افغانستان کے راستے مدد لے رہے ہیں۔
اگر کپاس کی برآمدات ہم سے گئی تو یہ سمجھیں ہمارے جسم سے خون نکال لیا گیا، یہ ہماری لائف لائن ہے۔ ہماری معیشت تباہ ہوجائے گی، بھارت کا مال براستہ دبئی ہمیں ملتا ہے۔ لہذا فوری طور پر واہگہ اور کھوکھراپار کی سرحدیں کھولیں۔ اگر این ڈی ایم اے کو مضبوط نہیں کریں گے ہمارے معاشرے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کا ان پٹ نہیں آئے گا۔ یہ بحران مسلسل جاری و ساری رہے گا۔
جنگ : گاوں میں چند مکانات ہوتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ انہیں نئے سرے سے مکان بنانے کے لیے محفوظ جگہ اور مضبوط تعمیر کے حوالے سے آگاہ کیا جائے۔
ناصر منصور:آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب نے پانچ لاکھ روپے کی لاگت سے فیبریکیٹڈ مکانوں کا ذکر کیا تھا۔ اگر ریاست کچھ کرنے کی خواہش مند ہو تو سب ہوسکتا ہے۔ لینڈ ریفارمز کی جائیں ہمیں کثیرالجہتی منصوبہ بندی سے ہی آگے بڑھنا پڑے گا۔
جنگـ : ہم نے 25 سے تیس عالمی امداد سے بھرے جہاز دیکھے ہیں ۔تو یہ امداد کہاں اور کیسے تقسیم ہورہی ہے ۔ اس کا کیا طریقہ کار ہے۔
ناصر منصور:کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ لوگ سوال کررہے ہیں جب تک آپ متعلقہ سماجی اداروںمثلا ایدھی ٹرسٹ جس کا 70سال کا تجربہ ہے انہیں شامل نہیں کریں گے۔ تو لوگ تو پوچھیں گے،وہ لوگ پھر سیاسی لوگوں کو پکڑتے ہیں۔
فیصل ایدھی: ہمیں اس میں کبھی شامل نہیں کریں گے،کیو ں کہ یہ امداد ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے سیاسی لوگوں میں تقسیم کی جاتی ہے تاکہ وہ اسے اپنی پارٹی کے لوگوں کو دے سکیں،ضلعی بنیاد پر زیادہ متاثر علاقوں کے لیے امداد اوپر سے بالکل ٹھیک طریقے سے ڈپٹی کمشنرز کودی جاتی ہے لیکن ڈی سی سیاسی دباو میں ہوتے ہیں وہ اپنے ایم این اے اور ایم پی اے کی ہدایت کے برخلاف کچھ بھی نہیں کرتے۔
جنگ:مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ این ڈی ایم اے کے پاس جو بھی امداد آئی ہمیں اس میں سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں ملا اس کی کیا حقیقت ہے۔
فیصل ایدھی: وہ امداد فہرست کے مطابق ڈپٹی کمشنرز کو ہی فراہم کی جارہی ہے ،لیکن ا تنی امداد نہیں آئی ہے۔ پچھلی آفتوں کی بے قاعدگیوں کی اطلاعات سےپاکستان دنیا بھر میں بدنام ہے۔ غیرملکی این جی اوز کو ہمارے ملک سے واپس جانے سے بھی امداد میں کمی ہوئی۔ دوہزار پانچ ،دوہزار دس، دو ہزار بارہ میں امداد بین الاقوامی غیرملکی این جی اوز کے ذریعے ملک میں آئی تھی۔ان کے ذریعے وہ لوگوں کو ملتی تھیں۔
بین الاقوامی امدادی اداروں کو ہماری حکومتوں پر کبھی بھی بھروسہ نہیں رہاکیوں کہ حکومت اپنا یہ کام ایمان داری سے نہیں کرپاتی۔میں پی ڈی ایم اے میں شامل ہوں لیکن میں خود ان کی میٹنگ میں شریک نہیں ہوتالہذا انہوں نے مجھے بلانا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اس میں ریفارمز کی ضرورت ہے۔لیکن بہت ساری این جی اوز ہیں۔
جنگ:دو ہزار دس کے سیلاب پر آئندہ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے کوئی تجاویز آئیں تھی پھر ان تجاویز پر کوئی کام ہوا تھا۔
فیصل ایدھی: ریفارمز کی بات ہوئیں تھیں۔ ہمارے یہاں ڈیزاسٹر کی سب سے بڑا وجہ تجاوزات ہے ۔جب تک عوامی نمائندے نہیں بیٹھیں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ متاثرین کے سارے امدادی پروگرام متاثر ہورہے ہیں ،انہیں مناسب مددنہیں مل رہی۔
جنگ:گائوں کے متاثرین کسی نہ کسی کے ووٹرز ہیں اگر سیاسی یا مذہبی جماعتیں امداد پروگرام سے لاتعلق ہیں توپھر یہ سیاسی طور پر کیسےزندہ رہیں گے۔
فیصل ایدھی:سیلاب میں اپنا سب کچھ کھونے والے انتہائی غریب لوگ ہیں،جو مقامی زمین داروں کی زمینوں پر معمولی پیسوں پر کام کرتے ہیں ۔ ان پڑھ ہیں اس لیے زمین دار جھوٹے معاہدے کرکے انہیں اپنا مقروض رکھتے ہیں۔ان مفلوک الحال لوگوں کی ناراضی سے یہاں کے منتخب نمائندوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جنگ:سندھ میں کراچی حیدرآباد اور تھر کے سوا پورا سندھ پانی میں ڈوبا ہے ہر چوتھا پانچواں آدمی سیلاب سے متاثر ہے۔اگرہمارے طالب علموں میں آفت کا احساس ہے توہم نے اپنے نجی خصوصا تعلیمی اداروں میں طالب علموں نوجوانوں میں سیلاب متاثرین کےلیے کوئ خاص سرگرمی کیوں نہیں دیکھی۔
خالد امین: ایسا نہیں ہے ہماری یونیورسٹی سمیت ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے طالب علموں میں کم یا زیادہ ہمدردی موجود ہے۔ کراچی یا حیدرآباد میں پڑھنے والوں کے عزیز رشتہ دار یا دوست سکھر یا کہیں اورضرور موجو ہیں۔ انڈس یونی ورسٹی نےسیلاب زدگان کی مدد کے لیے اندرون سندھ سفر کیا تھا۔ حیدرآباد سے آگے تو ہم نے انتہائی بری حالت میں لوگوں کو دیکھا سڑک کے دونوں جانب چارپائی ایک پر ایک رکھی ہوئیں ہیں ،بچے بچیاں اس پر بیٹھے یا لیٹے ہیں، چارپائی سے ان کےپالتو مویشی بندھے تھے۔
بچےجولیٹے نظر آئے ان پرڈھیروں مکھی او ر دیگر کیڑے مکوڑے ایسے بیٹھے تھے جیسے شہد کی مکھی چھتے پر جمع ہوتی ہیں۔ خوراک کی قلت نظر آئی،میرے ہمراہ چینوٹ سےرکن قومی اسمبلی قیصر احمد شیخ تھے۔ ہم نےوزیراعظم فنڈ میں بڑی رقم جمع کرائی اور ایک امدادی کینٹنر بھی تقسیم کیا، ہم پنجاب تک گئے لیکن سیلاب سے زیادہ تباہی سندھ اور بلوچستان میں آئی ہے ۔ہم نے ہمارے بچوں نےامداد ی سرگرمی میں اپنا حصہ ڈالاہے۔
جنگ:قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے کس طرح تیار ہنا ہے۔ یونی ورسٹیاں ادارے کیا اس پر تحقیق کررہی ہیں۔
خالد امین ـ: ادارے ختم ہوچکے ہیں۔ ادارے یا یونیورسٹی ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے کوئی پروپوزل تیار کرتی ہے ۔تو جب آفت گزرے کچھ ماہ گزریں گے ،تو سب دوبارہ بھول جائیں گے۔اور سارے پروپوزل سردخانے یا سرخ فیتے کی نظر ہوجائیں گے۔ دنیابھر کا میڈیا بتا رہا کہ کہ سیلاب نے پاکستان کو تباہ کردیا ہے اپنی قوم کے ہر عمر کے لوگوں سے اپیل کروں گا کہ خدارا سیلاب متاثرین کو تکلیف کو اپنے پر رکھ کر سوچیں۔ ہمیں امداد بانٹنے میں مدد صرف فوج رینجرزاور پولیس نے کی،لیکن امدادی کام بڑی معیاری این جی اوز کے ذریعے اگر کیا جائے گا۔تو وہ زیادہ بہتر رہے گا۔
جنگ:ہم بتایا جارہا ہے کہ صوبائی حکومت سندھ یہاں سے منتخب پیپلزپارٹی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سیلاب متاثرین کی امداد بحالی یا کسی اور مدد سے بالکل لاتعلق ہوئے ہیں۔وہ لوگ کہیں سرگرم نہیں ۔آپ پی پی کے سینیٹر ہیں ، صورت حال میں بہتری کے لیے کوئی ایسی میٹنگ ہوسکتی ہے جس میں اس میں بہتری کی تجاویز دے سکیں۔
سینیٹر کریم خواجہ:آپ پاکستان کا نقشہ دیکھیں تو جب آپ سندھ میں داخل ہوتے ہیں،ایک جانب رائٹ بینک ہے جو ضلع سیلاب سے متاثر ہوئے اس کی وجہ بلوچستان کی بارشیں ہیں۔وہاں سو ملی میٹر تک بارش ہوتی تھی لیکن اس سال چھ سو ملی میٹر ہوئیں،چھ سو ملی میٹر سے مراد چھ فٹ پانی،یہ سارا پانی تباہی کرتا ہوا سندھ میں داخل ہوا،اس پانی کا اختتام دو جگہوں دریائے سندھ اور منچھر جھیل پر ہوتا ہے۔
منچھر جھیل سندھ کی بارشوں سے پہلےہی بھرا ہوا تھاتو اگر یہ پانی نہ ہو تو یہ سار امنچھر جھیل سےپانی پھر وہاں سے دریائے سندھ میں جائے۔ تو یہ چھ فٹ یا بارہ فٹ پانی سندھ میں آیا اسے دریائے سندھ میں گرانا ہے۔اب نقشے دیکھ کر اندازہ کریں کہ دونوں جانب علاقے ڈوب گئے ہیں۔قدرت نےپاتھ ویز بنائے ہیں۔ایک دریائے سندھ سے منچھر جھیل نکلتا ہے،شکورویز کا ہے۔رن آف کچھ کا 70فیصد بھارت کے پاس اور ہمارے پاس اس 30فیصد ہے جب ہماری ایل بی اوڈی بنی اسے جانا تھا شکور لیک پر تو وہاں پر بھارت نے اعتراض کردیا،توہم نے دوسرا پاتھ وے بدین کا بنایا۔
اب وہاں جو ہورہا ہے میں اس کا ذکر نہ کرنے پر مجبور ہوں۔تو جب وہ پاتھ کھلے تو جو ضلع ڈوبے ہوئے ہیں وہاں کا پانی اس راستے سے نکل جائے گا۔دریائے سندھ ہمیشہ نو سے بارہ لاکھ کیوسک پانی لیتا ہے۔اس سال تو سات لاکھ کیوسک پانی تھا تو وہاں سے تو سیلا ب نہیں آسکتا ۔یہ جو کچھ تباہی آئی صرف بارش کی وجہ سے آئی۔ ہمیں بلوچستان اور کوہ سلیمان سے آنے والے پانی کے لیے پاتھ ویز بنانے پڑیں گے۔ اس پانی کے لیے ڈیم بنائیں جائیں۔دوہزار اٹھارہ میں پارلیمنٹ کی بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی ،ن لیگ اور پی ٹی آئی نے عالمی این جی اوز کو ملک میں کام کرنے کی اجازت کی کوشش کی تھی لیکن ہم کامیاب نہیں ہوئے ۔
جنگ:یو این او کانفرنس میں اگر ہم پر قرضوں کے بوجھ میں کمی پر کوئی فیصلہ ہو تو وہ ان حالات سے نمٹنے میں کتنا مددگار ہوگا۔
ناصر منصور:عوام کی بڑی تحریک کے بغیر ایسا ممکن نہیں ،عالمی مالیاتی اداروں کا رویہ ہمدردانہ نہیں ہے، وہاں بے حسی نظر آرہی ہے۔ ترقی یافتہ یورپی ممالک کا رویہ افریقہ یا ہمارے جیسے ممالک کے لیے سوتیلا ہے۔ ہمارے یہاں جرمنی اور دیگر جگہوں سے قانون دان آرہے ہیں اور میری اور فیصل ایدھی کی کوشش ہے کہ اس نقصان کے ہرجانے کےمعاوضے کا کیس دائر کیا جائے،جیسے ہم نے بلدیہ فیکٹری کا کیس کیا تھا ایسا ہی یہ کیس ہم جرمنی میں کرنے جارہے ہیں۔تاکہ یہ مسئلہ سامنے آئےاس پر گفتگو ہو۔
جنگ:اگر تمام سماجی تنظیمیں باہمی رابطے کے ساتھ کام کریں تو کام زیادہ بہتر ہوسکتا ہے۔آپ لوگ مشاورت سے شعبے اور علاقے آپس میں تقسیم کرکے کام کیوں نہیں کرتے۔
فیصل ایدھی: ریسکیو کے وقت رابطے یا سوچنا ممکن نہیں لمحے بھر میں مدد کےلیے پہنچنا ہوتا ہے۔امدادی کام میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ہونے چاہییں۔ ہم نے ہر آفت میں کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔اس مرتبہ ہم نے متاثرہ تمام ضلعوں میں بھرپور کام کیا ہے۔ ہمارے پاس اپنی پبلسٹی کے وسائل نہیں ہیں۔ایڈوزٹائز نہ پہلے کی نہ کررہے ہیں۔ہم ڈونرز کی رقم کو اپنی نمائش کے بجائے متاثرین پر خرچ کرنا چاہتےہیں لوگ ہمیں جانتے ہیں ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔میڈیا بھی ہمیں مناسب جگہ دیتاہے۔ہمیں سب عزت دیتے ہیں۔
جنگ: یہ گندم کی بوائی کا وقت ہے،سندھ اور جنوبی پنجاب کی صورتحال سامنے ہے،ہم پہلے ہی گندم درآمد کررہے تھے۔اب ہم اس مسئلے سے کیسے نمٹیں گے
ناصرمنصور: گندم کا بحران آئے گا،ان مسائل سے نمٹنے کےلیے بڑی بحث سوچ بچار کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ میں اس موضوع پر ہمیں کوئی بحث نظر نہیں آرہی۔قیامت خیز آفت کو چھوڑ کر سب دھمکی گرفتاری لانگ مارچ کی خبروں پر مصروف ہیں۔
جنگ:متاثرین سیلاب کی تکلیف پریشانی اور نقصان کو کیسے کم کرسکتے ہیں
ناصرمنصور:ریاست نے تو اب تک کچھ خاص نہیں کیا ۔ لوگ اپنی آپ کے تحت خود کررہے ہیں۔
فیصل ایدھی:اقوام متحدہ کی رپورٹ کےمطابق کورونا وبا سے پہلے پاکستان کی 30فیصد آباد ی سطح غربت کے نیچے تھی۔وبا میں چالیس فیصد ہوگئی اور اس تباہی کے بعدہماری50فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی سطح سے نیچے چلی جائی گی۔یہ آبادی ایک وقت کا کھانا کھائے گی ،قحط جیسی صورت حال نظر آئے گی،بیماریاں ہوں گی۔ ہمیں بہت نقصان ہوگا۔
خالد امین:میری ملک کی تمام جماعتوں اداروں سے صرف اپیل ہے ہمارے 3 چارکروڑ لوگ سیلاب کے بعد تکلیف میں آگئے ہیں
تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر ان کی بحالی کے ایک نکاتی نقطےمتفق اور متحد ہوجائیں۔